نورا کشتی یا جنگ؟ اکھاڑے کی بھارتی اسکرپٹ، چالاک پہلوان مگر اصل وار کس نے مارا؟ پاکستان بازی کیسے لے گیا؟


نورا کشتی یا جنگ؟ اکھاڑے کی بھارتی اسکرپٹ، چالاک پہلوان مگر اصل وار کس نے مارا؟ پاکستان بازی کیسے لے گیا؟

تحریر: راجہ زاہد اختر خانزادہ

یہ کوئی عام سیاسی کشمکش نہ تھی، نہ ہی کوئی سرحدی جھڑپ یا راکٹوں کی تیز رفتاری سے اڑتا کوئی معرکہ۔ یہ تو ایک نورا کشتی تھی، جی ہاں! ایک طے شدہ اسٹیجڈ مقابلہ جس میں بھارتی سرکار نے اس بار بھی پرانا پٹاخہ اسکرپٹ نکالا، چمکایا، اور انتخابی دنگل میں جھوٹ کے گھنگھرو باندھ کر میدان میں اتر گئی۔
اکھاڑے کی شروعات یوں ہوئی کہ 22 اپریل کو پہلگام میں 26 سیاحوں کی جانیں گئیں۔ لاشیں گریں، مگر اصل وار تو خبروں پر ہوا۔ اگلے لمحے بھارت نے بغیر کسی تحقیق، بغیر کسی ثبوت کے پاکستان پر الزام کا پہلا داؤ مارا ، جیسے پہلوان سلام کیے بغیر گردن پر جھپٹ جائے۔

یہ وہی پرانی چال تھی، جو 2019 کے پلوامہ اسکرپٹ میں بھی دیکھی گئی ایک واقعہ، ایک واویلا، ایک دشمن تراشی، اور ایک ہنگامہ خیز حملہ۔

مگر اس بار، کھیل میں نیا رنگ تھا، کیونکہ یہ 2025 کا پاکستان تھا  نہایت خاموش مگر نہایت ہوشیار

جب 6 اور 7 مئی کی درمیانی رات بھارت نے اپنے سیاسی ڈرامے کا پہلا منظر مکمل کیا: پاکستانی شہری علاقوں پر حملہ۔ مگر کہانی کا ڈائریکٹر بدل چکا تھا۔ پاکستان نے اس بار ہاتھ باندھ کر تماشہ دیکھنے سے انکار کر دیا، اور اکھاڑے میں ایسا جوابی داؤ مارا کہ بھارت کا پورا توازن بگڑ گیا۔

پانچ سے چھ بھارتی رافیل طیارے گرا ڈالے ، ایک خاتون پائلٹ زندہ پکڑی گئی جو شاید اس نورا کشتی کا واحد اصل کھلاڑی تھی اور دنیا نے دیکھا کہ اس بار پاکستان خاموش نہیں، وہ حکمت سے جواب دے رہا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے بھی ہار مان لی  ان کا بیان سامنے آیا کہ “ہم نے پہلے سے پاکستان کو بتادیا تھا کہ ہم فوجی تنصیبات یا ائیر بیس کو نہیں صرف پاکستان میں واقع دہشت گردی کے اڈوں کو نشانہ بنائیں گے” دراصل یہ قبول جرم تھا کہ جنگ نہیں، بلکہ انتخابی تماشہ چل رہا ہے۔ بھارت چاہتا تھا کہ پاکستان اس بار بھی دھوپ میں بیٹھ کر معصومیت کی چادر اوڑھ لے  جیسے کہ اس نے 2019 میں اپنے شہروں میں حملہ کے بعد بھارتی پائلٹ واپس کر کے کیا تھا، مگر پاکستان نے اس بار اپنا بیانیہ بدل دیا۔

عالمی اکھاڑا بھی چونکا ، اقوام متحدہ کی تاثرانہ خاموشی، امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کی صاف گوئی: “ہمیں اس جنگ سے کچھ لینا دینا نہیں”، یہ سب بھارت کے اسکرپٹ کا بھانڈا پھوڑ رہے تھے۔

امریکہ نے پہلے یکم مئی کو کہا: “بھارت ذمہ داری کا مظاہرہ کریگا اور کوئی بڑا حملہ نہیں ہوگا”، لیکن پھر وہ 9 مئی کو صاف الفاظ میں ہاتھ کھینچ گیآ۔ یعنی اکھاڑے میں مودی جی اکیلے رہ گئے، اور تماشائیوں کی نظریں اب پاکستان کے داؤ پر تھیں۔ اس اثنا میں

ایران اور عرب دنیا نے بیچ بچاؤ کا پرانا ہنر آزمایا۔ مگر ناکام رہے

پھر آیا وہ لمحہ، جسے تاریخ کُشتی کے سب سے خطرناک وار کے طور پر یاد رکھے گی بھارت نے پاکستان پر چوبیس میزائل داغے، جن میں ایک نور خان ایئربیس کے قریب آ لگا۔ یہ حملہ نہیں، سرخ لکیر کا خون تھا۔

پاکستان نے پھر کوئی تاخیر نہ کی۔ , سائبر حملے کیے، انڈیا کے ڈیفنس سسٹم فریز کر دیے، ایس-400 میزائل سسٹم فوز بیکار کردیئے، اور ساتھ ہی نور خان ایئربیس کے قریب سے جوہری اثاثے محفوظ مقام کی جانب منتقل ہونا شروع کردیئے ۔ چین اور ترکی نے پاکستان کے کندھے سے کندھا ملایا، پاکستان نے 80 سے زائد ڈرون اور میزائل انڈیا پر فائر کیے , اور بھارت کی اکھاڑے میں موجودگی گھبراہٹ میں بدل گئی۔

یہ وہ لمحہ تھا جب دنیا کو پہلی بار جوہری ہتھیاروں کی نقل و حرکت کی خبر ملی، اور تب، اس نورا کشتی کے اسٹیج پر اچانک ایک نیا کردار نمودار ہوا:

صدر ڈونلڈ ٹرمپ!

جنہوں نے آتے ہی اعلان کیا:

“سیز فائر کرا دیا ہے!”

ساتھ ہی اس نے اپنے ٹویٹ میں کشمیر پر ثالثی کی بات بھی چھیڑ دی وہی کشمیر، جو بھارت کے لیے “اٹوٹ انگ” تھا، وہ اب گلوبل گفت و شنید میں موضوع بن چکا تھا۔ اس سے پہلے بھی صدر ٹرمپ کچھ ایسا کہہ چکے تھے کہ دونوں پہلوان میرے لیئے برابر ہیں، یعنی مودی سرکار کی اس نورا کشتی کا اصل ناک آؤٹ پنچ خود امریکہ نے مارا۔ پاکستان نے اس تماشے میں نہ صرف دشمن کو چت کیا، بلکہ اس نورا کشتی کا ڈائریکشن، ڈائیلاگ اور انجام سب اپنے حق میں کر لیا۔
بھارت؟

اکیلا، تھکا ہارا، اور تنہا

اکھاڑے کے بیچ کھڑا، پایا گیا مگر تماشائیوں کی واہ واہ کسی اور کے لیے تھی۔  چین نے کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا،. روس خاموش رہا اور وہی خاموشی ایک سفارتی جملہ بن گئی۔

امریکہ نے ہاتھ پیچھے کیا،

اب تاریخ گواہ ہے کہ

بھارت نے اکھاڑا سجایا، اسکرپٹ لکھی، کردار بنائے، مگر انجام وہی لکھا گیا جو پاکستان نے طے کیا۔ یہ جنگ نہیں تھی، یہ ایک تماشا تھا۔جی ہاں، 2025 کی یہ جھڑپ درحقیقت نورا کشتی کا ماسٹر کلاس مقابلہ تھی — جس میں بھارتی حکومت نے اپنا روایتی اسکرپٹ دوبارہ نکالا، دھول جھاڑی، اور اکھاڑے میں ایسا اترے جیسے یہ قوم پرستی کا آخری راونڈ ہو۔ اس بار بھی کوریوگرافی وہی، کیمرہ وہی، لیکن کہانی کا انجام وہ نہ رہا جس کی ریہرسل مودی سرکار نے کی تھی۔

سیز فائر سے ایک ہفتہ پہلے وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے جس وار کا اشارہ دیا، وہ وقت سے پہلے اس نورا کشتی کی پوسٹر پھاڑنے والی پیش گوئی بن گئی۔ انہوں نے خبردار کیا تھا کہ بھارت جھوٹے الزامات کی آڑ میں حملے کی تیاری کر رہا ہے۔ اور پھر جب سیز فائر ہوا، تو جے شنکر نے خود ہی اس سازش پر اعترافی دستخط کر دیے۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ یہ کوئی اچانک لگی چوٹ نہیں تھی ، یہ وار اجازت لے کر مارا گیا تھا۔

عالمی خاموشی؟ وہ تو اسٹیج کی روشنی تھی ، جو صرف ایک پہلوان پر پڑی، اور باقی منظر اندھیرے میں چھپا دیا گیا۔ مگر تماشائیوں کی نظریں تیز تھیں ، اور ان کو نظر آ گیا کہ ایک طرف خون بہا، تو دوسری طرف صرف اسکرپٹ کی کامیابی کی دعائیں مانگی جا رہی تھیں۔ادھر بھارت کے اندر سیاسی اکھاڑا تھر تھرانے لگا۔ عوام سوال کرنے لگے:

“اگر ہمارے جہاز گرے ہیں تو بدلہ کہاں ہے؟”

“ہمیں اندھیرے میں کیوں رکھا گیا؟”

میڈیا چیخنے لگا:

“یہ جنگ نہیں، دھوکہ تھا!”

اور مودی؟

وہ خاموش تھے — اور ان کی یہی خاموشی سب سے بڑا ثبوت تھی کہ بیانیہ ختم ہو چکا ہے۔ اکھاڑے کے اس منظرنامے میں پاکستان نے جو داؤ مارا، وہ آخری نہیں، مگر فیصلہ کن تھا۔ مودی سمجھ رہے تھے کہ دھول چٹا کر تخت پر بیٹھیں گے، لیکن پاکستان نے دھوکے کی گردن پر ایسا داؤ مارا کہ پورا سیاسی اسٹیج الٹ گیا۔

پاکستان کی عسکری قیادت نے نہ صرف جنگی بیانیہ کو ریورس سوئنگ کی طرح موڑا، بلکہ داخلی سیاست میں بھی ایک ایسی پینترا بازی کی کہ وہ تھکن زدہ حکومت کو نئی زندگی دے دی گئی۔

تحریک انصاف کی ووکٹ کو “محبتِ وطن” کے نام پر گرادیا گیا،

اور یوں ایک تیر سے دو شکار ہوئے

اندرونی منظر بھی بدل گیا، اور بیرونی اکھاڑے میں بھی شور مچ گیا: بھارت چیخ اٹھا

“یہ داؤ ہم سے چھین لیا گیا!”

یہ کشتی ایسی تھی جہاں پسینہ کم، اور اسکرپٹ کا پسینہ زیادہ بہا۔

بھارتی پہلوان خوش فہمی میں جھومتا رہا کہ پاکستان مات کھا چکا ہے، مگر حقیقت یہ تھی کہ پاکستان گرا بھی اپنی مرضی سے، اور اٹھا بھی اپنی مرضی سے۔

تماشائی تالیاں بجا رہے تھے،

لیکن اصل مقابلہ پردے کے پیچھے طے ہو چکا تھا۔

آخری سین میں جب انعام کا ہار پاکستان کے گلے میں ڈال دیا گیا

بھارت بس کونے میں کھڑا تماشائی بن کر رہ گیا،

آنکھوں میں حیرت، ہاتھ میں اسکرپٹ، اور دل میں شکست کا سناٹا۔

اب مودی حکومت اس نورا کُشتی کا بدلہ لینے کیلئے ایک نیا “نیو نارمل” بنانے میں جُتی ہوئے ہے  ایک ایسا ماحول جہاں جنگ کا شور ہر وقت گونجتا رہے، تاکہ جب بھی داخلی سیاست میں زلزلہ آئے،

اسکو اکھاڑے کی دھول میں چھپا دیا جائے۔ لیکن افسوس، پاکستان اب صرف دفاع کرنے والا ملک نہیں رہا یہ اب ایک اسمارٹ ریاست بن چکا ہے، جو بندوق کے ساتھ ساتھ بیانیے، ٹیکنالوجی اور سفارت کاری کے ہتھیار بھی ساتھ رکھتا ہے۔ بھارت نے بھی اپنی شرمندگی چھپانے کیلئے اب سفارتی رنگ چڑھایا ہے

ششی تھرور کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی گئی ہے ، تاکہ دنیا کو بتایا جا سکے کہ بھارت بھی امن چاہتا ہے۔، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ کمیٹی نورا کشتی کے پردے کا نیا کپڑا ہے،  اصل ہدف پھر سے پاکستان کو گھیرنے کا ماحول بنانا ہے۔

جواباً پاکستان نے بھی بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں ایک مؤثر سفارتی کمیٹی بناڈالی  جس کا کام صرف صفائی دینا نہیں بلکہ دنیا کو دلیل سے قائل کرنا ہے۔اور یہ کام وہ اس بار کامیابی سے کرنا چاہتے ہیں۔ اس بار بھے پاکستان اسکرپٹ کا صرف ایک حصہ تھا لیکن وہ کمال چالاکی سے اسکرپٹ کا ایڈیٹر، ڈائریکٹر بنتے بنتے آخرکار ہیرو بن چکا ہے۔

مُودی سرکار کی نورا کشتی اب بے نقاب ہو چکی ہے۔ وہ خود اپنے بنائے ہوئے فریب کے جال میں الجھ چکے ہیں۔

دنیا نے پہچان لیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں امن کا اصل داعی کون ہے۔ چین اب صرف پردے کے پیچھے کا کھلاڑی نہیں، بلکہ عسکری، سائبر، اور سفارتی محاذ پر پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔

اسرائیل جو ہمیشہ بھارت کو خفیہ ٹیکنالوجی دے کر اپنا کام نکالتا رہا،

اس بار امریکہ پر اثرانداز ہونے میں ناکام رہا۔

اب دنیا دو صفوں میں بٹ چکی ہے

ایک طرف: پاکستان، چین، ترکی، ایران، روس اور دوسری طرف: بھارت، اسرائیل، اور انکا ایک غیر یقینی دوست امریکہ۔ یہ نئی عالمی صف بندی اب جنوبی ایشیا کے توازنِ اور  طاقت کو پلٹ چکی ہے۔ پاکستان نے نہ صرف میدانِ جنگ میں، بلکہ ذہنوں اور بیانیے میں بھی فتح حاصل کی ہے۔ دنیا کو دکھا دیا گیا ہے کہ ہم امن چاہتے ہیں، اور کمزور بھی نہیں ہیں۔ ہم جانتے ہیں کب جواب دینا ہے، اور کب سچ کو دنیا کے سامنے بےنقاب کرنا ہے۔ یہ جنگ بندوقوں، بموں اور طیاروں کی نہیں تھی ، یہ جنگ تھی نظریے، سفارت اور بیانیے کی۔ اسطرح اس جنگ کی یہ اسکرپٹ بھارت نے لکھی،

مگر کھیل پاکستان نے جیت لیا۔۔!


اپنا تبصرہ لکھیں