کیا مودی اپنی سیاسی ساکھ بچانے کے لیے واپس جنگ کرے گا؟


کیا مودی اپنی سیاسی ساکھ بچانے کے لیے واپس جنگ کرے گا؟

تحریر: راجا زاہد اختر خانزادہ

وقت کی سانس تھم گئی ہے، فضا میں بارود کی بُو ابتک موجود ہے، بھارت میں نریندر مودی کی حکومت اس وقت سخت عوامی دباؤ میں ہے۔ حالیہ سیز فائر، عالمی اکیلاپن، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سیز فائر کا اعلان اچانک کشمیر پر ثالثی کا ٹوئیٹ، اور چین کی واضح حمایت سے پیدا ہونے والی صورت حال نے بھارتی سیاست میں زلزلہ برپا کر دیا ہے۔ اسوقت لفظ خاموش ہیں، مگر آنکھیں بولتی ہیں اور سوال ایک ہے: کیا نریندر مودی… پھر سے جنگ کرے گا؟

یہ سوال محض سیاست کا نہیں، یہ سوال تاریخ، خون، سرحد اور انا کا ہے، یہ سوال ہے اُس خواب کا، جسے کسی نے راکھ میں چھپایا اور کسی نے اسے چنگاری میں ڈھالا

اسوقت مودی کے گرد وقت کی کمر ٹوٹ چکی ہے، سیز فائر کے نقارے بج چکے

لیکن یہ امن…امن نہیں، ایک عارضی خاموشی ہے اسطرح ہی جیسے دریا، طوفان سے پہلے تھم جائے اور قصاب چھری تیز کرنے سے پہلے مسکرا دے

اسلیئے سوال یہ ہے کہ کیا مودی، جس پر اب اپنے ہی میڈیا اور عوام کی جانب سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں، کیا وہ اپنی سیاسی بقا کے لیے ایک اور جنگ چھیڑ سکتا ہے؟

ماضی میں مودی سرکار نے ہمیشہ پاکستان کے خلاف سخت موقف کو اپنی طاقت کی علامت بنایا۔ بالاکوٹ حملے، اڑی واقعہ، اور پلوامہ جیسے سانحات کو بنیاد بنا کر انتخابات جیتنے کا کھیل اب شاید پرانا پڑ چکا ہے۔ حالیہ کشیدگی میں، جب پاکستان نے مؤثر جواب دیا اور عالمی سطح پر بھارتی بیانیہ بھی  قبول نہ کیا گیا، تو نریندر مودی کو اندرونی محاذ پر اسوقت شدید تنقید کا سامنا ہوا۔

مودی کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے پاکستان میں دہشتگردوں  کے کیمپ تباہ کر دیے ہیں ، مگر زمینی حقائق کچھ اور ہی بتا رہے ہیں۔ حتیٰ کہ خود بھارتی صحافی اور سابق فوجی افسران یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ “ہم سے جھوٹ بولا گیا۔ اس تمام تر صورتحال میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جب سیز فائر سے متعلق ٹیوٹر پر پوسٹ کی اور اچانک کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی تو بھارت سکتے میں آ گیا جبکہ اس سے قبل بھی جب کشیدگی عروج پر تھی تو ٹرمپ نے کشمیر مسئلہ کو اجاگر کیا اور بتایا کہ یہ مدئلل پندرہ سو سالوں سے چلا آرہا ہے، جبکہ بھارت ہمیشہ یہ کہتا رہا کہ کشمیر ایک “اندرونی معاملہ” ہے، جبکہ پاکستان اسے ایک بین الاقوامی تنازعہ مانتا ہے۔ ٹرمپ کے اس بیان نے بھارت کے اس دعوے کو جھٹلا دیا۔ اور انکی جانب سے یہ بیان یونہی نہیں آ گیا، اس ضمن میں ظاہر ہے  امریکی انتظامیہ نے انکو ضرور  کوئی  بریفنگ دی ہوگی، مگر ٹرمپ نے بے ساختگی سے کہہ دیا سب کچھ کہہ دیا  اور بھارت کا سارا توازن بگڑ گیا۔ اسطرح جب ڈونلڈ ٹرمپ نے کشمیر کا ذکر چھیڑا تو دہلی کی دیواروں میں دراڑ پڑ گئی۔ وہ بیانیہ، جو بھارت نے برسوں سے بنایا تھا  وہ ٹرمپ کے بیان کے بعد ایک لمحے میں بکھر گیا، مودی نے جو تقریر کی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسکی سمجھ میں کچھ نہیں آیا کہ  وہ صدر ٹرمہ کو “تھینک یو، مسٹر ٹرمپ” کہیں یا ایسا کہیں کہ انہوں نے  “کیوں ایسا بیان کیوں دے دیا؟” اسلیئے اسپر خاموشی ہی اختیار کی گئی،  مگر وہ امریکہ، جس سے بھارت نے دوستی کا خواب بُنا تھا  اُسہی نے دونوں فریقوں کو ایک پلڑے میں تولا تو بھارت کو شرمندگی ہوئی، وہ ٹرمپ جو گرین لینڈ، غزہ، بلگرام اور اب کشمیر…شاید ٹرمپ کے الفاظ، بس الفاظ نہ تھے کسی گہرے کھیل کا آغاز تھے شاید ابتک انڈین یہ سوچ رہے ہیں کہ ٹرمپ نے کیوں دونوں ممالک کو ایک سطح پر لا کھڑا کیا ہے۔ کیونکہ بھارتی تو اپنے آپکو پاکستان سے ہر سطح پر بہتر ملک تصور کرتے ہیں، اسطرح ٹرمپ نے نہ صرف سیز فائر کی ثالثی کو طشت از بام کیا بلکہ اپنے بیان میں پاکستان کو بھی مساوی حیثیت دی، جو بھارتی دعوؤں کے برخلاف تھا۔ اس سے بھارتی خواب کہ وہ امریکہ کا “قریبی اتحادی” ہے، ٹرمپ کے ٹوئیٹ اور بیانات کے بعد دھڑام سے زمین بوس ہو گیا

دوسری جانب چین… جو اکثر خاموش رہتا ہے

اس بار خاموشی کو ایک پیغام میں ڈھال گیا

1962 کے بعد جس نے اپنے زخم سمیٹے

اب پاکستان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہو گیا 1962 کی جنگ کے بعد چین نے بہت کچھ سیکھا کئی ہمسایہ ممالک سے سرحدی تنازعات سلجھالیئے تاکہ وہ اپنی معاشی ترقی پر توجہ دے سکے۔ روس نے تمام اقوام سے معملات طے کیئے اور پاکستان میں بھی سی پیک شروع کیا،  پاکستان کے ساتھ سی پیک نے چین کو پاکستان کا ایک بڑا اسٹریٹجک شراکت دار بنا دیا یہ سی پیک صرف سڑک نہیں یہ ایک نظریہ ہے، یہ سرحدوں کا احترام ہے اور عالمی دنیا نے دیکھا کہ جب عزت کی بات ہو تو چین خاموش نہیں رہتا۔ حالیہ کشیدگی میں چین نے واضح کر دیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ چین کی یہ پوزیشن بھارت کے لیے ایک خطرناک پیغام ہے کہ اگر نئی دہلی نے خطے کو غیر مستحکم کیا تو بیجنگ خاموش نہیں رہے گا۔ دوسری جانب اسرائیل کی دفاعی ٹیکنالوجی اور انٹیلیجنس بھارت کی پالیسیوں میں سرایت کر چکی ہے۔ پاکستان دونوں کا مشترکہ دشمن ہے اسلیئے اسرائیل کی چھاؤں میں بھارت نے اپنی تلواریں تیز کی ڈرون، راڈار، سائبر وار، ان سے سب کچھ انکو ملا اسلیئے  بھارت کو گہرے سیکیورٹی تعلقات اور جدید جنگی ساز و سامان کی فراہمی اس بات کا اشارہ ہے کہ اگر بھارت ایٹمی اثاثوں پر حملے کی مہم چلائے، تو اسرائیل کی تکنیکی مدد اس کے ساتھ ہو سکتی ہے۔ یہی اسرائیل کا خواب ہے لیکن انکا یہ عمل خطے کو مکمل تباہی کے دہانے پر لا سکتا ہے۔

انڈیا کا پاکستان پر الزام ہے کہ وہ نیوکلیئر ہتھیاروں کے نام پر دنیا کو “بلیک میل” کرتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا جوہری نظریہ “minimum credible deterrence” پر مبنی ہے  یعنی صرف دفاع، نہ کہ جارحیت۔ اگر بھارت ایٹمی اثاثوں کو نشانہ بناتا ہے تو پاکستان کا ردعمل فطری ہوگا، اور اس میں تاخیر کی گنجائش نہیں ہوگی۔ پاکستان کے ایٹمی بٹن پر انگلی نہیں، نظریہ ہے اسلیئے یہ بلیک میلنگ نہیں، بقا کی گارنٹی ہے بہرکیف مودی اب بھارت میں ہی عوام کے کٹہرے میں ہے، جہاں نہ وہ بول سکتا ہے، نہ چپ رہ سکتا ہے،  جبکہ کشمیر وہ زخم ہے جسے بھارت کبھی مانتا نہیں اور پاکستان اسکو کبھی بھولتا نہیں اقوام متحدہ کے ایوان میں پاکستان کی آواز صدیوں سے گونج رہی ہے کہ کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے مگر جب  اس جنگ کے بعد اچانک، ٹرمپ نے اس زخم کو عالمی کاغذ پر لکھ دیا ہے تو  مودی سے قوم سوال کررہی ہے کہ آپکے مہنگے ترین رافیل نے کیا کیا ؟ آپ نے سیز فائر کیوں کیا؟ ہم سے جھوٹ کیوں بولا گیا؟ میڈیا جو کل تک مودی کیلئے تالیاں بجا رہا تھا آج کہہ رہا ہے ہمیں دھوکہ دیا گیا  تھا اسلیئے  اب مودی حکومت پاکستان کے ساتھ  ایک “نیو نارمل” بنانے کی کوشش میں ہے: کہ بھارت حالتِ جنگ میں ہے اور کوئی بھی کارروائی اسی فریم ورک میں رہ کر ہی کی جائے گی۔ یعنی اگلی جھڑپ کا جواز پہلے سے تیار ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ بھارت نے اکثر جھوٹے جواز بناکر پاکستان پر حملے کیے چاہے وہ چتر سنگھ پورہ ہو، اڑی ہو، یا پلوامہ یا اب پلوامہ

اب بھارت میں سوال یہ ہے کہ اگر پانچ چھ جہاز ہمارے گر گئے ہیں تو مودی کب اسکا بدلہ لے گا؟ اسلیئے عوامی غصہ، سیاسی دباو، میڈیا کا یوٹرن، اور بین الاقوامی سطح پر بے عزتی یہ سب کچھ مودی کو دوبارہ حملے کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔ مگر یہ بھارت کو بھی معلوم ہوچکا ہے کہ اس بار پاکستان تنہا نہیں، چین، ترکی، فرنٹ پر جبکہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، روس ، ایران اسکی  پشت پر  پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں، اور اب امریکہ ایک نیا کردار ادا کررہا ہے۔

اسوقت مودی کے لیے یہ ایک کٹھن دوراہا ہے کہ اگر وہ خاموش رہتا ہے تو سیاسی موت اس کا مقدر ہے، اور اگر وہ جنگ کرتا ہے تو وہ ایک ایسے محاذ پر کودے گا جہاں اس کے سامنے چین اور پاکستان متحد کھڑے ہیں، اور امریکہ کے توازن کا پتہ نہیں ہے، لیکن مودی کی سیاست کو جنگ درکار ہے کیونکہ امن میں وہ ہار چکا اب وہ اڑی، پلوامہ، بالاکوٹ جیسے من گھڑت سانحوں کی تلاش میں ہے تا کہ ایک بار پھر “راشٹر واد” کی لہر اٹھے اور بی جے پی کے جھنڈے بھارت میں  لہرا سکیں مودی اب یہ سوچ رہا ہے کہ ساکھ کیسے بچائی جائے؟ شاید ایک اور حملہ؟ شاید ایک اور بیانیہ؟ مگر تاریخ لکھتی ہے کہ جو حکمران جنگ سے عزت بچانا چاہیں وہ اکثر… نہ عزت بچا پاتے ہیں، نہ زمین اور پھر فقط راکھ بچتی ہے نہ بھاشن، نہ بھگوا… فقط راکھ

اسلیئے یہ وقت عالمی برادری کے لیے بھی کڑے امتحان کا ہے کہ کیا وہ خطے کو ایٹمی جنگ سے بچا پائینگے یا مودی کی انا سب کچھ جلا کر راکھ کر دے گی؟ سوال اب یہی ہے: کیا مودی اپنی ساکھ بچانے کے لیے دوبارہ جنگ کرے گا اور کیسے کریگا ؟


اپنا تبصرہ لکھیں