روشنی کے پیچھے چھپا سچ: ڈیپ اسٹیٹ کی دنیا !


روشنی کے پیچھے چھپا سچ: ڈیپ اسٹیٹ

کی دنیا !

تحریر: راجہ زاہد اختر خانزادہ

دنیا کا اصل نظام، شاید وہ نہیں جو ہماری آنکھیں روز ٹی وی پر دیکھتی ہیں، یا جسے اخبارات کی سیاہی چمکدار بنا کر پیش کرتی ہے۔ کہیں اس رسمی اسٹیج کے پیچھے ایک اور تھیٹر بھی چل رہا ہے—خاموش، پراسرار، اور مکمل نظم و ضبط کے ساتھ۔ اسی تھیٹر کو دنیا “ڈیپ اسٹیٹ” کہتی ہے۔ ڈیپ اسٹیٹ، بظاہر ایک سازشی تصور لگتا ہے مگر جب تاریخ کے اوراق کو پلٹا جائے، تو سچائی اکثر انہی سطروں کے درمیان چھپی ہوتی ہے۔ یہ وہ غیرمنتخب قوتیں ہیں جو عوامی نمائندوں کے پردے میں بیٹھ کر اصل چالیں کھیلتی ہیں۔ فوجی ادارے، انٹیلیجنس ایجنسیاں، خفیہ بیوروکریسی، عدالتی حلقے، اور بعض اوقات میڈیا سب اس دھندلے نیٹ ورک کا حصہ بن سکتے ہیں۔ پاکستان میں “ڈیپ اسٹیٹ” کا تصور نیا نہیں۔ جب سیاسی حکومتیں بار بار بدلتی رہیں اور فوجی وردی برسوں تک اقتدار میں رہی، تو عوام سمجھ گئے کہ طاقت کا اصل مرکز کہاں ہے۔ جنرل عاصم منیر کی جانب سے کشمیر کو “شہ رگ” کہنا، صرف بیان نہیں، ایک اعلان تھا کہ قومی بیانیہ اب بھی جی ایچ کیو کی راہداریوں میں گونجتا ہے اور وہ پالیسی جو پچھلے دور میں تبدیل ہوگئی تھی وہ اب وہ نہیں رہی، اسطرح عدلیہ کے فیصلے، میڈیا کا رخ، اور سیاستدانوں کی فائلیں سب کچھ ان نادیدہ ہاتھوں کی جنبش پر مڑتے ہیں بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے، لیکن وہاں کی ڈیپ اسٹیٹ نے ہندوتوا نظریے کو اس طرح ریاستی ڈھانچے میں گوندھ دیا ہے کہ اب عدالتی فیصلے بھی، جیسے بابری مسجد کیس یا آرٹیکل 370 کی منسوخی، ایک سیاسی نظریے کی تائید معلوم ہوتے ہیں۔ RAW (را) کے علاقائی کردار، کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیاں، اور میڈیا کا حکومت نواز ہونا سب کچھ ایک اور “پردے کے پیچھے” اسٹیج کی جھلک دیتا ہے اسطرح  جو آزادی کا علمبردار کہلاتا ہے، وہاں امریکہ سی آئی اے ، ناسا، اور پینٹاگون کی مثلث نے ایک ایسا جال بچھا رکھا ہے جس میں حکومتیں بدلتی رہتی ہیں، مگر خارجہ پالیسی، جنگی ایجنڈے، اور نگرانی کے اصول نہیں بدلتے۔ افغانستان سے لے کر یوکرین تک، تیل سے لے کر مائیکروچپس تک—یہ سب صرف معیشت کی کہانیاں نہیں بلکہ گہرے سائے میں موجود اسٹیبلشمنٹ کے خفیہ معاہدے ہیں۔ ٹرمپ نے خود اس کا اعتراف کیا کہ “ڈیپ اسٹیٹ” اس کے خلاف کام کر رہی ہے۔ اسطرح جہاں ڈیپ اسٹیٹ کی بازگشت سنائی دیتی ہے وہاں اب ڈارک ویب  کی صورت آج کے ڈیجیٹل دور میں ایک اور دنیا موجود ہے دنیا کی سطح پر جو کچھ نظر آتا ہے، وہ اکثر حقیقت کا صرف ایک پہلو ہوتا ہے۔ پردے کے پیچھے ایک اور دنیا بسی ہوئی ہے ڈارک ویب یہ وہ جگہ ہے جہاں ڈیپ اسٹیٹ کی سرگرمیاں، خفیہ معاہدے، اور غیر قانونی لین دین انجام پاتے ہیں، اور جہاں طاقت کے اصل کھیل کھیلے جاتے ہیں۔ ڈارک ویب انٹرنیٹ کا وہ حصہ ہے جو عام سرچ انجنز سے پوشیدہ ہوتا ہے اور خصوصی سافٹ ویئر جیسے Tor یا I2P کے ذریعے ہی قابل رسائی ہوتا ہے۔   یہاں صارفین مکمل گمنامی کے ساتھ اپنی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں، جو اسے خفیہ معلومات کے تبادلے، غیر قانونی تجارت، اور جاسوسی کے لیے مثالی بناتا ہے۔ڈارک ویب۔ یہ انٹرنیٹ کا وہ حصہ ہے جو گوگل کی نگاہ سے اوجھل ہے، جہاں خفیہ دستاویزات، حکومتی لیکس، ہتھیاروں کی خرید و فروخت، جاسوسی کے ٹولز، اور جعلی شناختوں کا کاروبار ہوتا ہے۔  ڈیپ اسٹیٹ، جو ریاست کے اندر ایک خفیہ طاقت کا نظام ہے وہ ڈارک ویب کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں  یہی وہ جگہ ہے جہاں کبھی وکی لیکس نے امریکی فوج کی خفیہ کارروائیاں بے نقاب کیں۔ یہی وہ سایہ دار بازار ہے جہاں ڈیپ اسٹیٹ کے کچھ راز کھل جاتے ہیں، اور کچھ مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں سوال یہ کہ کیا  ہم واقعی خود مختار قومیں ہیں یا صرف پتلیاں ہیں جو نظر آنے والے حکمرانوں کے بجائے ان نادیدہ طاقتوں کی انگلیوں پر ناچتی ہیں  اسٹیٹ کے وجود کا مطلب صرف سازش نہیں، بلکہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ طاقت، ہمیشہ روشنی میں نہیں رہتی الجزیرہ، رائٹرز اور ایمنسٹی انڈیا کے مطابق بابری مسجد فیصلہ (2019) میں بھارتی سپریم کورٹ نے متنازعہ زمین رام مندر کے حق میں دیا، جسے عالمی سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ دی وائر، دی ہندو اور /بی بی سی کے مطابق آرٹیکل 370 کی منسوخی (2019) کے بعد کشمیر میں فوجی تسلط بڑھا، اور کشمیریوں کے بنیادی حقوق شدید متاثر ہوئے۔ فاربڈن اسٹوریز اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق پیگاسس جاسوسی اسکینڈل (2021) میں بھارتی صحافیوں، سیاستدانوں اور انسانی حقوق کارکنوں کی نگرانی کی گئی، جس میں حکومت اور خفیہ ایجنسیوں کے ملوث ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا۔ دی گارڈین، نیویارک ٹائمز اور وکی لیکس کے مطابق عراق جنگ (2003) کو سی آئی اے اور پینٹاگون کی طرف سے جھوٹے انٹیلیجنس کی بنیاد پر چھیڑا گیا، جس میں ’ویپنز آف ماس ڈسٹرکشن‘ کے جھوٹے دعوے کیے گئے۔ ایڈورڈ اسنوڈن کی طرف سے افشا کی گئی معلومات (2013) کے مطابق این ایس اے شہریوں، عالمی رہنماؤں اور صحافیوں کی وسیع پیمانے پر نگرانی کر رہی تھی، جسے واشنگٹن پوسٹ اور دی گارڈین نے شائع کیا۔ جولین اسانج کی وکی لیکس نے امریکی فوج کی خفیہ کارروائیوں، خاص طور پر عراق اور افغانستان میں شہریوں کی ہلاکتوں پر مبنی ویڈیوز اور رپورٹس منظر عام پر لائیں، جس نے دنیا بھر میں ڈیپ اسٹیٹ کے خفیہ کردار

پر سوالات اٹھائے بی بی سی، ڈوئچے ویلے اور الجزیرہ کے مطابق جنرل فیض حمید کے افغانستان میں طالبان سے تعلقات اور اندرونِ ملک سیاسی جوڑ توڑ ان کے اسٹیبلشمنٹ کردار کی جھلک دیتے ہیں۔ 2017 میں پانامہ پیپرز کی بنیاد پر نواز شریف کی نااہلی کو بھی اسٹیبلشمنٹ کے اثر و رسوخ کا نتیجہ قرار دیا گیا، جسے دی گارڈین اور نیویارک ٹائمز نے رپورٹ کیا۔ ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق 2018 کے انتخابات میں فوج کے کردار نے انتخابی عمل کی شفافیت پر سنگین سوالات کھڑے کیے۔ ایف بی آئی کورٹ ریکارڈز اور وائرڈ میگزین کے مطابق سلک روڈ کیس (2011–2013) میں ڈارک ویب کے ذریعے غیرقانونی اسلحہ، منشیات اور جعلی شناختوں کی تجارت کی جاتی تھی۔ وکی لیکس کے والٹ 7 لیک (2017) میں سی آئی اے کے سائبر ٹولز، ہیکنگ سوفٹ ویئر، اور ڈارک ویب سے خفیہ آپریشنز کے لیے استعمال ہونے والے طریقے منظرِ عام پر آئے، جس نے امریکی ڈیپ اسٹیٹ کے تکنیکی ہتھیاروں کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا اس وقت جب دنیا جمہوریت، شفافیت، اور خودمختاری کے نعروں سے گونج رہی ہے، یہ سوال اور بھی ضروری ہو گیا ہے کہ کیا واقعی عوام کی آواز فیصلہ کن ہے؟ یا ہم محض تماشائی ہیں، جو ایک طے شدہ اسکرپٹ کے مطابق تالیاں بجاتے ہیں؟ ڈیپ اسٹیٹ کا وجود سازشی نظریہ نہیں بلکہ ایک تلخ حقیقت ہے جو ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم ریاست، طاقت اور آزادی کے مفہوم پر دوبارہ غور کریں۔ اگر دنیا کو واقعی آزاد اور شفاف بنانا ہے، تو اس سائے دار نظام کو بے نقاب کرنا ہوگا—ورنہ ہم ہمیشہ انہی دھندلکوں میں زندہ رہیں گے، جہاں سچائی صرف ایک افواہ بن کر رہ جاتی ہے۔


اپنا تبصرہ لکھیں