پہلگام تشدد کے بعد امریکہ کا بھارت اور پاکستان سے ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے اور پرامن حل تلاش کرنے کا مطالبہ


امریکہ نے بھارت اور پاکستان دونوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ حالیہ پہلگام میں ہونے والے تشدد کے بعد بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اور طویل المدتی پرامن حل تلاش کریں۔

ایک پریس بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے، امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے علاقائی استحکام کی اہمیت پر زور دیا اور دونوں ممالک پر زور دیا کہ وہ اپنے اختلافات کو حل کرنے کے لیے سفارتی راستے اختیار کریں۔ بروس نے کہا، “ہم متعدد سطحوں پر دونوں حکومتوں کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں اور صورتحال کی باریک بینی سے نگرانی کر رہے ہیں۔”

یہ تبصرے 22 اپریل کو بھارت کے زیر قبضہ کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقے پہلگام میں مبینہ طور پر 26 سیاحوں کی ہلاکت کے بعد بڑھتی ہوئی دشمنی کے تناظر میں سامنے آئے ہیں۔

اس واقعے نے نئی دہلی کی جانب سے جوابی کارروائیوں کے ایک سلسلے کو جنم دیا ہے، جس میں سندھ طاس معاہدے کی معطلی اور پاکستانی شہریوں کو بھارت چھوڑنے کے لیے 48 گھنٹے کا الٹی میٹم شامل ہے۔ بھارت نے اسلام آباد سے اپنے ملٹری اتاشی کو بھی واپس بلا لیا اور سفارتی عملے میں نمایاں کمی کا حکم دیا۔

اطلاعات کے مطابق، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے حملے کے بعد بھارتی فوج کو “آپریشنل آزادی” دے دی ہے، جس سے مزید کشیدگی بڑھنے کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔ اسلام آباد نے جواب میں قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کا اجلاس طلب کیا اور بھارت کے ساتھ تمام دوطرفہ معاہدوں، بشمول شملہ معاہدے کی معطلی کا اعلان کیا۔ پاکستان نے اپنی فضائی حدود اور زمینی راستے بھی بند کر دیے، ہر قسم کی تجارت روک دی، اور بھارتی سفارت کاروں کو ملک بدر کر دیا۔

بریفنگ کے دوران، بروس نے تصدیق کی کہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر اور پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ الگ الگ گفتگو کی ہے۔ انہوں نے کہا، “وزیر روبیو نے طویل مدتی امن اور علاقائی استحکام کی حمایت کرنے والے ذمہ دارانہ اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔”

بھارت کے ساتھ امریکہ کی اسٹریٹجک شراکت داری کا اعادہ کرتے ہوئے، بروس نے نوٹ کیا کہ واشنگٹن علاقائی امن کی کوششوں کی حمایت کے لیے پرعزم ہے۔ ترجمان نے مزید کہا، “جیسا کہ صدر نے گزشتہ ہفتے وزیر اعظم مودی کے ساتھ اپنی ملاقات کے دوران کہا تھا، امریکہ دہشت گردی کے خلاف مضبوطی سے بھارت کے ساتھ کھڑا ہے۔”

بروس نے یوکرین کے ساتھ حالیہ معاہدے کے حوالے سے روس کے موقف پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا لیکن ذکر کیا کہ امریکہ اور یوکرین کے درمیان اقتصادی شراکت داری “طویل المدتی” ہوگی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایران کے ساتھ مذاکرات کے چوتھے دور کے لیے ابھی مقام کا تعین نہیں کیا گیا ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ کی سفارتی کامیابیوں کی تعریف کرتے ہوئے، بروس نے موجودہ امریکی خارجہ پالیسی کو “کامیاب” قرار دیا اور انتظامیہ کو “امریکی تاریخ کی سب سے شفاف” قرار دیا۔

حالیہ پیش رفتوں نے دو جوہری ہتھیاروں سے لیس ہمسایہ ممالک کے درمیان مکمل پیمانے پر سفارتی اور عسکری تعطل کے خدشات کو دوبارہ جنم دے دیا ہے۔ تجزیہ کار خبردار کرتے ہیں کہ فوری طور پر کشیدگی کم نہ کی گئی تو صورتحال ایک وسیع تر بحران میں بدل سکتی ہے جس کے جنوبی ایشیا کے لیے سنگین مضمرات ہوں گے۔

دریں اثنا، اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی مبصرین نے تحمل کا مطالبہ کیا ہے اور دونوں فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ مزید اشتعال انگیزی سے گریز کریں۔ سفارتی برادری خطے پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے، اور مذاکرات اور سفارت کاری کی طرف واپسی کی امید کر رہی ہے۔


اپنا تبصرہ لکھیں