ہارورڈ سے ییل تک : یونیورسٹیوں کی دیواروں پر لکھی کہانیاں !


ہارورڈ سے ییل تک : یونیورسٹیوں کی دیواروں پر لکھی کہانیاں !

تحریر: راجہ زاہد اختر خانزادہ

رات کے سناٹے میں جب دنیا سوتی ہے، تو بعض دروازے جاگتے ہیں۔ وہ دروازے جن کے پیچھے مستقبل کا خواب بُنا جاتا ہے، جہاں دلیل، تحقیق، فکر اور سوال کی آگ جلتی ہے۔ ایسے ہی ایک دروازے پر آج دستک ہوئی ہے مگر یہ دستک سوال کرنے والوں کی نہیں، سوال دبانے والوں کی ہے۔

امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی… محض ایک تعلیمی ادارہ نہیں، بلکہ وہ چراغ ہے جس نے نسلوں کو روشن کیا۔ آج اس چراغ کو بجھانے کی کوشش ہو رہی ہے اس دعوے کے ساتھ کہ اس کی روشنی “مخصوص نظریات” کو جِلا دیتی ہے، اور باقی سچائیوں کو اندھیرے میں چھوڑ دیتی ہے۔

مگر سوال یہ ہے:

کیا روشنی کو روکنے سے اندھیرا سچ بن جائے گا؟

کیا تحقیق کے سفر پر پہرہ بٹھا دینے سے تاریخ کی سمت بدل جائے گی؟

کیا صدارت کی مہریں، جامعات کی دانش پر

حاکم ہو سکتی ہیں؟

صدر ٹرمپ کا غصہ محض چند مظاہروں پر نہیں۔ یہ ایک پرانی تکرار ہے، جو سقراط کے زہر کے پیالے سے شروع ہوا، گیلیلیو کی زبان بندی سے گزرا، اور اب جدید امریکہ میں ہارورڈ کے کورٹ رومز تک آن پہنچا ہے۔ یہ وہ جنگ ہے جس میں ایک طرف وہ ہے جو طاقت رکھتا ہے قلم توڑنے کی، فنڈ روکنے کی، داخلے بند کرنے کی۔ اور دوسری طرف وہ ہے جو دلیل رکھتا ہے سوچنے کی، بولنے کی، اختلاف کرنے کی۔ گذشتہ دنوں جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے DEI یعنی تنوع، مساوات اور شمولیت جیسے پروگراموں کے خلاف ایگزیکٹو احکامات جاری کیے، تو اس کی گونج امریکہ کی یونیورسٹیوں کے دالانوں سے ہوتی ہوئی لائبریریوں کی خاموشی میں سرگوشی بن کر گونجی۔ امریکہ میں حالیہ حکومتی اقدامات کے تحت متعدد جامعات کی وفاقی گرانٹس معطل یا منجمد کی گئی، جن کی مجموعی مالیت 10 ارب ڈالر سے زائد ہے اسطرح ہارورڈ یونیورسٹی، جسے وفاقی حکومت سے سالانہ $2.3 ارب کی فنڈنگ حاصل ہوتی ہے، اچانک اس کو اس معاشی پشت پناہی سے محروم کر دیا گیا۔ ٹرمپ کی جانب سے پیغام واضح تھا: “آزادی کی قیمت، خاموشی ہے۔”

اسطرح کولمبیا یونیورسٹی کو 400 ملین ڈالر، کارنیل کو 1 ارب، نارتھ ویسٹرن کو 790 ملین، اور یونیورسٹی آف پنسلوانیا کو 175 ملین کی فنڈنگ سے محروم کیا گیا۔ ییل یونیورسٹی، یونیورسٹی آف کنیکٹیکٹ اور ایریزونا کی پبلک یونیورسٹیوں کی گرانٹس بھی خطرے میں پڑ گئیں۔ اور پھر جیسے ہی تفتیش کا ایک طوفان اٹھا، امریکہ بھر کی 60 سے زائد جامعات حکومت کی نظرِ کرم کی محتاج بن کر رہ گئیں۔ ان کی وفاقی فنڈنگ پر یا تو نظرثانی کی گئی، یا مکمل طور پر معطل کر دی گئی

ہارورڈ یونیورسٹی کے صدر ایلن گاربر نے اعلان کیا: “ہم جھکیں گے نہیں” یہ الفاظ کسی دفتر کی رسمی پریس ریلیز نہیں تھی بلکہ فکری مزاحمت کی ایک بازگشت تھی۔ دیواروں پر اب صرف اعلانات نہیں، آنکھوں میں خوابوں کے بجائے سوالات لکھے جا رہے ہیں۔ ہر طالب علم، ہر استاد، ہر محقق آج تاریخ کے ایک ورق کی صورت اختیار کر چکا ہے، اور ہارورڈ سمیت دیگر یونیورسٹیوں کی فضاؤں میں ایک نئی کتاب رقم ہو رہی ہے جو شاید علم کے جمہوری حق کی آخری صفِ دفاع ہو۔

آج کینسر پر جاری تحقیق روک دی گئی ہے یہ وہی تحقیق ہے جس سے ہزاروں زندگیاں امید سے جڑی ہوئی تھیں۔ ہارورڈ میڈیکل اسکول کی لیبارٹری کے دروازے پر آج ایک نوٹ چسپاں ہے: ‘ہم نے خلیوں کو تو پگھلانا سیکھ لیا، مگر اقتدار کے دل کو پگھلانا نہ سیکھ سکے۔

آج امریکہ بھر کی جامعات کی فضا میں ایک بےآواز کراہ گونج رہی ہے وہ سسکی جو اُس لمحے ابھرتی ہے جب علم، شناخت اور ضمیر کے درمیان دیوار کھینچی جاتی ہے۔ ایک فلسطینی طالب علم کو ہتھکڑی لگا دی جاتی ہے، اور اس کا مقالہ، جو غزہ کی تاریخ پر تھا، ضبط کر لیا جاتا ہے۔ ایک پاکستانی محقق کی ای میل محض اس لیے مشکوک قرار دی جاتی ہے کہ اُس میں “فلسطین” کا لفظ لکھا تھا۔ رومیسا اوزترک کی قمیض پر لگا دھبہ دراصل چائے کا نہیں، بلکہ اُس خاموش احتجاج کا زخم تھا جسے طاقت نے دبانے کی کوشش کی۔

یہ سب واقعات تنہا کہانیاں نہیں، بلکہ اُن اصولوں کی آزمایش ہیں جن پر جامعات کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ انہی لمحوں میں، پرنسٹن کی دیواروں پر آئن اسٹائن کا وہ جملہ پھر سے زندہ ہو جاتا ہے:

“تعلیم کا مقصد صرف حقائق کو یاد رکھنا نہیں، بلکہ ذہن کو تربیت دینا ہے۔”

اسطرح جب کولمبیا یونیورسٹی نے ٹرمپ کے احکامات کے بعد 400 ملین ڈالر کی گرانٹ کو مسترد کیا، تو اُس نے محض ایک رقم کو نہیں، بلکہ ظلم کے خلاف اپنی علمی خودمختاری کو ترجیح دی۔ ییل یونیورسٹی نے واشنگٹن کی گلیوں میں اپنی دانشورانہ مزاحمت کا پرچم بلند کیا۔ مشیگن یونیورسٹی کی لائبریری میں آج بھی مارٹن لوتھر کنگ کا وہ خط سانس لے رہا ہے، جیسے کہ وہ دیواروں سے پکار کر کہہ رہا ہو:

“ظلم کے خلاف خاموشی، خود ایک جرم ہے۔” امریکی یونیورسٹیوں میں حق اور انصاف کی جب یہ جنگ چھڑی تو  اس جنگ میں ہر چراغ روشن نہ رہ سکا۔ صدر ٹرمپ کے احکامات کے بعد جب ٹیکساس کی جامعات نے DEI (تنوع، برابری، شمولیت) کے دفاتر کے نام بدلنے شروع کیے، تو منظر کچھ ایسا تھا جیسے کوئی مجرم اپنی شناخت چھپانے کی کوشش کر رہا ہو۔ یونیورسٹی آف ایریزونا کی تحقیقاتی گرانٹس پر جب 812 ملین ڈالر کا سایہ پڑا، تو لیبارٹریوں میں سناٹا چھا گیا۔ فلوریڈا کی جامعات نے تو گویا “تنوع” جیسے لفظ کو ہی مٹا دیا، جیسے تاریخ کی کتاب سے ایک صفحہ پھاڑ کر راکھ کر دیا گیا ہو۔ ایسے میں ہارورڈ کی وڈنر لائبریری کے شیشوں پر ٹپکتی شبنم، اب شبنم نہیں آنسو ہیں۔ ہر قطرہ اُس پاکستانی طالب علم کا عکس ہے جو ویزے کی درخواست لیے خاموشی سے قطار میں کھڑا ہے۔ ہر بوند اُس بنگلہ دیشی محقق کی ہچکی ہے جو ڈیٹا کی لائبریری میں سچ کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ ہر نمی اُس فلسطینی ادیب کی زبان ہے جو اب اردو میں اپنے چھینے گئے وطن کو لکھ رہا ہے، کیونکہ اُس کی اپنی زبان کو سننے والا کوئی نہیں بچا۔ اور یہ سب کچھ اُس ملک میں ہو رہا ہے جس نے ایک زمانے میں نعرہ دیا تھا: “ہم امریکہ کو دوبارہ عظیم بنائیں گے”… مگر اب عظمت کے وہ خواب سیاسی نعروں اور منافقانہ بیانیوں کی نذر ہو چکے ہیں۔ اب جامعات میں سوال علم کے نہیں، شناخت کے ہو گئے ہیں: “تم نے اسرائیل پر تنقید کیوں کی؟” “تم نے غزہ کا نام کیوں لیا؟” “تمہارا نقاب کیوں ہے؟” “تمہاری زبان اردو، عربی یا فارسی کیوں ہے؟” یہ سوال اب کلاس رومز میں نہیں، عدالتوں اور جیلوں میں پوچھے جا رہے ہیں جہاں علم کی جگہ خوف اور دلیل کی جگہ تفتیش نے لے لی ہے۔

امریکہ میں صدر ٹرمپ کی انتظامیہ صرف فنڈز نہیں روک رہی وہ فکری سانس روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہ سکھانا چاہتی ہے: سوچو، مگر ہماری حد میں۔ تحقیق کرو، مگر ہماری اجازت سے۔ سچ بولو، مگر وہی جو ہم لکھوائیں۔ یہ معاملہ ہارورڈ کا نہیں، یہ ہر اُس طالب علم کا ہے جو ویزا انٹرویو میں اپنے نام کی وضاحت دیتا ہے۔ یہ ہر اُس استاد کا ہے جو کلاس روم میں اختلافِ رائے کو سچ کی معراج سمجھتا ہے۔

فیصلہ تمہیں کرنا ہے… تم روشنی کے ساتھ ہو یا اندھیرے کے ہمنوا؟ تم سوال کی قوت ہو یا خاموشی کے غلام؟ تم ہارورڈ کی پہچان ہو… یا اس کی دیواروں کے دشمن؟

یہ بات تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ دنیا کی تاریخ بدلنے والے اکثر طلبہ تھے ان کے ہاتھ میں توپ نہیں تھی کتابیں تھیں۔ آج بھی وہی لمحہ ہے… صرف فرق یہ ہے کہ تخت اور تعلیمی ادارے ایک بار پھر آمنے سامنے ہیں۔ اب سب کی نظریں ہارورڈ کے گھنٹہ گھر پر جمی ہیں کہ جب وہ اگلی گھنٹی بجاتا ہے تو کیا وہ انکے لیئے آزادی کی گونج ہوگی یا حکم کی زنجیر؟

تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ علم کی شمع ہوا سے نہیں بجھتی اس کی لو تو مزید بلند ہوتی ہے۔ کسی شاعر نے شاید اسی لمحے کے لیے کہا تھا:

ہم ہی وہ علم کے روشن چراغ ہیں جن کو

ہوا بجھاتی نہیں ہے، سلام کرتی ہے

آج ہارورڈ کی دیواریں نہیں، اس کی کتابوں کے اوراق تاریخ کو مخاطب کر رہے ہیں: “تم ہمیں مٹا سکتے ہو، ہمارے کیمپس کو خالی کر سکتے ہو، مگر ہماری فکر کے بیج ہوا میں ہیں۔ کل جب تمہاری فرعونیت مٹ جائے گی، یہی بیج صحرا کو گلستان بنا دیں گے۔”

یہ کہانی صرف امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی  کی نہیں یہ ہر اُس انسان کی ہے جو سمجھتا ہے کہ علم کی روشنی کسی ایک دیوار میں قید نہیں ہو سکتی۔ جب تک ہارورڈ اور دیگر یونیورسٹیوں کے کیمپس میں ایک بھی طالب علم یہ  سوال پوچھتا رہے گا، یہ جنگ جاری رہے گی۔ اور تاریخ کی کتابیں ہمیشہ انہی کے نام سنہری حروف میں لکھتی ہیں جو سچ کے لیے ہمیشہ ڈٹ جاتے ہیں


اپنا تبصرہ لکھیں