‎پردیس کے ہوائی اڈوں پر بکھرتےخواب – اُمیدوں کا دیس بنا تشویش کا محور


پردیس کے ہوائی اڈوں پر بکھرتےخواب

اُمیدوں کا دیس بنا تشویش کا محور

تحریر: راجہ زاہد اختر خانزادہ

کبھی امریکہ کا گرین کارڈ ایک خواب تھا، ایک وعدہ تھا—روشن مستقبل کا وعدہ، تحفظ اور وقار کا یقین۔ کہا جاتا تھا جہاں بھی جاؤ، تمہاری شناخت محفوظ رہے گی، تمہاری عزت سلامت رہے گی۔ لیکن اب وہی گرین کارڈ، امریکی امیگریشن افسر کے ہاتھ میں ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ جیسے اُس کی نگاہیں پکار رہی ہوں: “تم کون ہو؟ کہاں سے آئے ہو؟ اور یہاں کیوں ہو؟”
اب امریکہ کے ہوائی اڈے خوابوں کی سرزمین پر قدم رکھنے کی نوید نہیں دیتے، بلکہ جیسے ہی جہاز کا پہیہ زمین کو چھوتا ہے، سوالوں کا طوفان مسافر کے دل کی دھڑکنوں سے بھی تیز ہو جاتا ہے۔ “کیا کبھی عدالت گئے؟ کیا کوئی چالان ہوا؟ دوا کے بغیر نیند آئی تھی کبھی؟”
یہ سوالات محض قانونی جانچ پڑتال نہیں رہے، اب یہ شناخت کے تعاقب میں اٹھتے ہیں ایسے تعاقب میں جس کا رخ ان چہروں کی طرف ہے جہاں وقت کی جھریاں بولتی ہیں، ان لہجوں کی طرف ہے جن میں مشرق کی مٹی کی خوشبو ہے، اور ان ناموں کی طرف جن میں “خان”، “پٹیل”، “گپتا”، “رضوی” یا “ڈکسن” جیسے حروفِ شناخت چھپے ہیں
یہ ہے امریکہ کا امیگریشن کاؤنٹر جہاں ایک معمر جوڑا خاموشی سے کھڑا ہے۔ ان کے چہروں پر چھائی سراسیمگی، کانپتی انگلیاں اور خوف زدہ آنکھیں ایک ایسا سوال پوچھتی ہیں جس کا جواب نہ قانون کی کتابوں میں ہے، نہ کسی ضابطے کی شق میں۔ یہ سوال انسانیت کے ضمیر میں چھپا ہوا ہے، ایک ایسی پکار جو لبوں سے نہیں، خاموشی سے نکلتی ہے۔ مگر یہ خاموشی… یہ چیخ رہی ہے۔
امیگریشن کاؤنٹر پر فارم I-407 کی ایک کاپی لرزتی انگلیوں سے چھوئی جا رہی ہے یہ وہ فارم جو امریکہ میں مستقل رہائش کو ترک کرنے کی علامت بن چکا ہے۔ عورت کے سفید بالوں میں اب بھی اُس مٹی کی خوشبو باقی ہے جو کسی دور کے دیس سے آئی تھی جہاں خواب بُنے گئے، اور مہک بچپن سے لپٹی ہوئی چلی آئی۔ مرد کی آنکھوں میں ایک ایسا خالی پن ہے، جیسے کئی موسموں کے وعدے، بچوں کی ہنسی، اور دو ملکوں کے بیچ لٹکتا وقت سب دھندلا گئے ہوں۔ یہ امریکہ ہے وہی سرزمین جہاں اُن کے بیٹے اور بیٹیاں آباد ہیں، جہاں پوتے نواسے پل رہے ہیں، اسکول جا رہے ہیں، خواب دیکھ رہے ہیں۔ لیکن آج… آج یہی زمین اُن سے سوال کر رہی ہے: “کیا تم واقعی یہاں کے ہو؟ یا تم محض ایک عارضی سایہ ہو، جو ہر سردی میں اپنے وطن کی گرمی تلاشنے نکل جاتا ہے؟
یہ وہی امریکہ ہے، جہاں کبھی ہوائی اڈے خوش آمدید کہنے والے دروازے ہوا کرتے تھے، جہاں مہمان نوازی کی امید، اور گرین کارڈ ایک محفوظ مستقبل کا استعارہ تھا۔ مگر آج واشنگٹن، نیویارک، اٹلانٹا، شکاگو، ہوسٹن، لاس اینجلس اور دیگر ایئرپورٹس پر منظرنامہ بدل چکا ہے۔ اب ان دروازوں پر استقبالی مسکراہٹیں نہیں، بلکہ امیگریشن افسران کی عقاب جیسی نگاہیں، سرد لہجے، اور مشینی رویے ایستادہ ہیں۔ یہاں بوڑھے کندھوں سے گرین کارڈ کی وہ قانونی شناخت چھینی جا رہی ہے جو کبھی عزت کی علامت ہوا کرتی تھی۔ آج گرین کارڈ ہولڈرز، بالخصوص جنوبی ایشیا یعنی بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا اور افغانستان سے آنے والے بزرگ شہری، امریکی ہوائی اڈوں پر “سیکنڈری انسپیکشن” کی خفیہ دیوار کے پیچھے لے جائے جا رہے ہیں۔ وہاں ان سے سوالات کیے جاتے ہیں جو دل دہلا دیتے ہیں، گھنٹوں جاری رہنے والی تفتیش، کبھی پوری رات کی حراست، اور بعض اوقات تو اُن سے زبردستی قانونی حیثیت ختم کرنے والا فارم I-407 سائن کروایا جاتا ہے۔
ٹائمز آف انڈیا، سی این این، واشنگٹن پوسٹ اور این بی سی نیوز جیسی عالمی میڈیا تنظیمیں ان واقعات پر مسلسل توجہ دے رہی ہیں۔ رپورٹس میں انکشاف ہوتا ہے کہ بزرگ مسافروں کو بغیر کسی مقدمے کے حراست میں لیا جاتا ہے، اور کچھ کو ہتھکڑیاں لگا کر اس انداز میں وطن واپس بھیج دیا جاتا ہے، جیسے وہ کوئی خطرناک مجرم ہوں۔ یہ ظلم، یہ بےرحمی، صرف قانون کی خلاف ورزی نہیں یہ اس وعدے کی پامالی ہے جو امریکہ نے اپنی سرزمین پر ہر قانونی باشندے سے کیا تھا: وقار، تحفظ، اور مساوی سلوک
یہ صرف بوسٹن ایئرپورٹ کی بات نہیں… یہ ایک کہانی ہے اُس جرمن شہری فابیان شمٹ کی، جس کے خلاف صرف دس سال پرانی ایک معمولی ایف آئی آر درج تھی مروانا رکھنے کا الزام، جو بعد میں مسترد ہو چکا تھا۔ مگر پھر بھی، اُسے گھنٹوں امیگریشن افسران کی نگاہوں، سوالوں اور شکوک کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ شخص جو برسوں سے امریکہ میں مقیم تھا، اُسے اُس کی ماضی کی ایک مدھم پرچھائیں نے روک لیا۔ اُس دن بوسٹن کا ہوائی اڈہ اُسے ‘پُرامن وطن’ نہیں، بلکہ ‘پُر سوال ریاست’ لگا۔ پھر سیئٹل کی لیوئلن ڈکسن کی کہانی آتی ہے، اور اُس برطانوی لڑکی کی جس کا قصور محض ویزا کی ایک تکنیکی لغزش تھی۔ اُس لڑکی کو تین ہفتے حراست میں رکھا گیا، اور اُس کے باپ کی چیخ عدالت میں گونجی: “وہ ہینی بل لیکٹر نہیں ہے!” مگر قانون نے اُسے بھی ہتھکڑی پہنا دی صرف اس لیے کہ وہ اجنبی تھی، اور اس کی شناخت میں ابہام تھا۔
یہ اب انفرادی واقعات نہیں رہے، یہ ایک اجتماعی بےچینی کا اظہار ہیں ایک ایسا خاموش ماتم جو نیویارک کے ایئرپورٹس سے لے کر لاس اینجلس کی سرحدوں تک پھیل چکا ہے۔
اب امیگریشن افسر صرف افسر نہیں وہ جج بھی ہیں، جیوری بھی اور سزا سنانے والا ہاتھ بھی۔ پیشانیوں پر قانون کے الفاظ کندہ ہیں، لیکن لہجے میں رحم کی کوئی رمق باقی نہیں۔ اور جب وہ کہتے ہیں: “دستخط کرو، یا حراست کے لیے تیار ہو جاؤ” تو یہ کوئی فلمی ڈائیلاگ نہیں، بلکہ فلوریڈا، ٹیکساس، اور کیلیفورنیا کے ہوائی اڈوں پر اُن بزرگ والدین سے کہا جاتا ہے، جو صرف سردیوں میں اپنے بیٹے، بیٹی یا پوتوں کے ساتھ دہلی، لاہور، ڈھاکہ یا کراچی میں چند مہینے گزارنے گئے تھے۔
اب وہ امریکہ، جو کبھی اُمیدوں، خوابوں اور تحفظ کا استعارہ تھا ایک ایسا مقام بن چکا ہے جہاں سوال، شک، اور شناخت کا بحران ہر مسافر کے ہمسفر ہیں۔ جرمن ہو، برطانوی، بھارتی، پاکستانی یا بنگلہ دیشی سب کے چہروں پر ایک بےنام سی گھبراہٹ چھا چکی ہے۔ اور یہ گھبراہٹ، صرف ہوائی اڈوں پر نہیں، بلکہ دلوں میں جا بسی ہے
یہ صرف ایک کاغذ نہیں… یہ “فارم I-407” ہے، جو امیگریشن افسران ان بوڑھے ہاتھوں کے سامنے رکھتے ہیں، جن کی انگلیاں کبھی اپنے بچوں کی انگلی تھام کر امریکہ کی سرزمین پر اُتری تھیں۔ یہ وہی کاغذ ہے جس پر دستخط کرتے ہی وہ ’رضاکارانہ‘ طور پر اپنی قانونی مستقل رہائش سے دستبردار ہو جاتے ہیں—اکثر بغیر سمجھے، بغیر پڑھے، اور بغیر کسی وکیل یا ترجمان کے۔
سی بی پی افسران، اکثر کمزور انگریزی بولنے والے، خوف زدہ بزرگوں کے سامنے یہ فارم رکھتے ہیں۔ ان کی نظریں سوال سے بھرپور، ہاتھ کانپتے، اور زبان خاموش ہوتی ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ وہ کیا کھو رہے ہیں—صرف یہ جانتے ہیں کہ سامنے بیٹھا افسر ناراض ہے، لہجہ سخت ہے، اور ماحول انجان و سرد۔ اور وہ دستخط کر دیتے ہیں… ڈر سے، کمزوری سے، یا اس خوف سے کہ انکار کا مطلب ہتھکڑی ہو سکتا ہے۔
یہ فارم اب ایک قانونی جال بن چکا ہے ایسا جال جس میں خوف، لاعلمی اور زبان کی رکاوٹیں الجھ کر رہ جاتی ہیں۔ بزرگ، جو قانون کی باریکیوں سے نابلد ہوتے ہیں، صرف اتنا جانتے ہیں کہ اُن کے بیٹے، بیٹیاں، پوتے اور نواسے امریکہ میں ہیں اور وہ صرف اُن کے قریب رہنا چاہتے ہیں۔ لیکن ایک دستخط انہیں اُس زندگی، اُس قربت اور اُس خواب سے جدا کر دیتا ہے۔
امیگریشن قانون کہتا ہے کہ اگر کوئی شخص 180 دن سے زیادہ بیرونِ ملک رہے تو اسے ’دوبارہ داخل ہونے والا‘ سمجھا جا سکتا ہے، اور اگر 365 دن سے زائد گزر جائیں تو یہ تاثر دیا جا سکتا ہے کہ اُس نے اپنی مستقل رہائش خود ترک کر دی۔ مگر قانون یہ بھی کہتا ہے کہ ہر گرین کارڈ ہولڈر کو عدالت میں اپنی وضاحت دینے کا حق حاصل ہے۔ یہ حق آئینی ہے، بنیادی ہے۔ مگر آج… یہ حق امیگریشن افسران کی صوابدید پر قربان ہو رہا ہے۔
رپورٹوں کے مطابق بعض پروازوں میں تو فلائٹ مارشلز نے دورانِ پرواز ہی مسافروں کو فارم I-407 تھما دیا، جیسے ملک بدری کا فیصلہ ہواؤں میں لکھا جا رہا ہو۔ اور جب سے صدر ٹرمپ کی سخت گیر امیگریشن پالیسیوں کا سایہ گہرا ہوا، امریکہ کی سرزمین اُن کے لیے سرد ہو گئی جنہوں نے اپنی جوانیاں امریکہ کے اسپتالوں، اسکولوں، اور فیکٹریوں کی نذر کر دی تھیں۔ ایک بھارتی دادا، جنہوں نے چھ سال امریکہ میں گزارے، اور کبھی چھ ماہ سے زیادہ بیرون ملک نہ ٹھہرے، اُن سے پوچھا گیا: “کیا آپ واقعی امریکہ میں رہتے ہیں؟” ایک پاکستانی نانا، جن کے پاس اپنا گھر، ٹیکس ریٹرن، بیوی کے ساتھ مشترکہ بینک اکاؤنٹس موجود تھے، کہتے ہیں: “مجھے صرف اس لیے حراست میں رکھا گیا کہ میں ہر سال دو مہینے کراچی میں اپنی بیٹی کے پاس چلا جاتا ہوں۔”
امیگریشن وکلا اشون شرما، کرپا اپادھیائے، سنیہل باترا، اور راجیو ایس کھنہ جیسے قانونی ماہرین چیخ چیخ کر کہتے ہیں: “سی بی پی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی کا گرین کارڈ ضبط کرے۔ صرف امیگریشن جج کے پاس یہ حق ہے۔” وہ آواز دیتے ہیں: “فارم I-407 پر دستخط نہ کرو! تمہیں عدالت میں سنا جائے گا!”
لیکن یہ آواز… اکثر ایئرپورٹ کی دیواروں سے ٹکرا کر لوٹ آتی ہے۔ کیونکہ جن بزرگوں کے کان اب کم سنتے ہیں، دل ڈرا ہوا ہے، اور زبان مقامی نہیں، اُن تک یہ آواز نہیں پہنچتی۔ وہ خوف کے سائے میں دستخط کر بیٹھتے ہیں اور ایک دستخط سے زندگی کا رُخ بدل جاتا ہے۔المیہ یہ نہیں کہ ایک فارم پر دستخط ہو گئے، المیہ یہ ہے کہ وہ دستخط خوف سے ہوئے، لاعلمی سے، اور ایک ایسی خاموشی میں ہوئے جہاں نہ کوئی ترجمان تھا، نہ وکیل، نہ رحم۔ وہ دادا جن کے قدموں نے نیویارک کی برفانی گلیوں میں اپنے پوتوں کے ساتھ چہل قدمی کی تھی، وہ نانی جن کے ہاتھوں نے امریکی اسکولوں کے گیٹ پر اپنے نواسوں کے لنچ باکس تھمائے تھے آج وہی بزرگ محض اس لیے جلاوطن کیے جا رہے ہیں کہ وہ انگریزی کے چند قانونی جملے نہ سمجھ سکے۔ وہ صرف چند مہینے وطن کی گرمی محسوس کرنے گئے تھے، لیکن واپس آئے تو اُن پر الزام تھا کہ “تم نے امریکہ کو چھوڑ دیا ہے!” آج امریکہ میں امیگریشن کی پالیسی صرف اُن لوگوں کے خلاف نہیں جو غیر قانونی طور پر یہاں آتے ہیں، بلکہ اُن کے خلاف بھی تلوار بن چکی ہے جو قانونی، مہذب، اور محنتی شہری کے طور پر دہائیوں سے یہاں رہ رہے ہیں۔ وہ بزرگ جنہوں نے اپنی جوانی اس ملک کی تعمیر میں صرف کی، جن کے بچوں نے امریکی سرزمین کو اپنا مستقبل چُنا اب انہی سے پوچھا جا رہا ہے: “کیا تم واقعی یہاں کے ہو؟”
یہ کیسا انصاف ہے کہ ایک کاغذ کا ٹکڑا فارم I-407، ایک جھٹکے میں سالوں پر محیط قربانیوں کو مٹا دے؟ یہ کیسی آزادی ہے جہاں زبان نہ جاننے والا مجرم بن جائے؟ یہ کیسی رواداری ہے جہاں سردیوں کی چھٹیوں کا ہر دن ایک جرم بن جائے؟
صدر ٹرمپ کی شروع کی گئی سخت گیر امیگریشن پالیسی، جسے کبھی ’غیر قانونی تارکین وطن‘ کے خلاف حفاظتی قدم کہا گیا تھا، اب اُس حد تک بڑھ چکی ہے کہ وہ اُن قانونی، عزت دار، اور سفید بالوں والے شہریوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے جنہوں نے امریکہ کی روح میں اپنا حصہ ڈالا تھا۔ وہ نانا، وہ دادی، جو کبھی اس ملک کے سسٹم پر بھروسا کرتے تھے، آج اسی نظام کی سرحدوں پر شک کی نگاہ سے دیکھے جا رہے ہیں۔ اُن کا جرم؟ صرف اتنا کہ وہ اپنے وطن کی دھوپ دیکھنے گئے تھے، اور واپس لوٹ کر امریکی سرزمین کو “اپنا” کہنا چاہتے تھے
واشنگٹن پوسٹ کی تازہ رپورٹ صرف ایک خبر نہیں—یہ ایک نوحہ ہے۔ ایک ایسی صدا، جو ہوائی اڈوں کی دیواروں سے ٹکرا کر لوٹ آتی ہے۔ درجنوں نہیں، بلکہ درجن درجن کہانیاں… وہ کہانیاں جن میں جنوبی ایشیا کے بزرگوں کو، بغیر کسی وکیل، بغیر کسی سماعت، اور بغیر کسی جرم کے، وطن بدر کر دیا گیا۔ ان سے اُن کا گرین کارڈ، اور اس کے ساتھ اُن کی شناخت، اُن کی قربانیاں، اُن کے رشتے اور اُن کا وقار چھین لیا گیا۔
یہ صرف بھارتی یا پاکستانی نہیں، یہ صرف بنگلہ دیشی یا نیپالی نہیں—یہ پوری ایک تہذیب ہے جو امریکا کے امیگریشن کاؤنٹر پر دم توڑ رہی ہے۔ وہ دادی، جن کی ہتھیلیوں میں مہندی کی خوشبو اب بھی دہلی کی گلیوں سے آتی ہے۔ وہ نانا، جن کی آواز میں ابھی بھی لاہور کے صحنوں کی اذان کی بازگشت ہے۔ وہ نانی، جن کی آنکھوں میں بنارس کے گھاٹ، ڈھاکہ کی بارشیں، یا کابل کے صحن کی خوشبو چھپی ہے—آج وہ سب ہوائی اڈے کی ایک اجنبی سیٹ پر بیٹھے ہیں، اور ان کی لرزتی انگلیوں میں فارم I-407 ہے۔
یہ صرف ایک فارم نہیں—یہ ان کے حقِ محبت کی تردید ہے۔
ان کے خواب، صرف امریکا میں رہنے کے خواب نہیں ہوتے۔ وہ اپنے بیٹے کی گریجویشن، نواسی کی مہندی، یا پوتے کے پہلے قدم کی تصویریں لے کر آتے ہیں۔ لیکن جب وہ ایئرپورٹ پر اترتے ہیں تو ایک افسر انہیں کہتا ہے: “آپ اب اس ملک کے رہائشی نہیں رہے۔”
تو کیا وقت نہیں آ گیا کہ ہم خود سے سوال کریں؟
کیا گرین کارڈ صرف قانونی کاغذ ہے؟ یا وہ ایک رشتہ ہے—جس میں محبت، محنت، قربانی، اور نسلوں کی وابستگی بندھی ہوتی ہے؟ اور اگر یہ رشتہ ہے، تو کیا ہم اسے محض ایک دستخط سے ختم کر سکتے ہیں؟ کیا ہم ایسے فارم کے ذریعے اُن چہروں سے رشتہ توڑ سکتے ہیں جو کبھی اس ملک کے لیے دعائیں کرتے تھے؟
اب وقت ہے کہ امریکی حکومت، خاص طور پر CBP، اس غیر انسانی پالیسی پر نظرِثانی کرے۔ امیگریشن قوانین کی ضرورت بجا، لیکن خاندانی وحدت، انسانی عزت، اور بین النسلی رشتوں کی حرمت کہیں بلند تر اصول ہیں۔ یہ ملک، جو خود کو ’امیگرینٹس کا دیس‘ کہتا ہے، کیا واقعی اتنا اجنبی ہو چکا ہے کہ اپنے ہی دروازے پر کھڑے مہمانوں سے اُن کی شناخت چھین لے؟ یہ صرف قانونی مسئلہ نہیں یہ تہذیب کی بنیادوں پر لگا ایک زخم ہے۔ یہ اُن لوگوں کی داستان ہے جو امریکا کو خوابوں کا دیس سمجھ کر آئے، اور یہاں سے اُن کا خواب چھین لیا گیا۔ وہ بزرگ، جنہوں نے امریکی مٹی میں اپنی جڑیں بوئیں، آج اسی مٹی پر اجنبی قرار دیے جا رہے ہیں۔

یہ کالم کسی قانونی مشورے کا اختتام نہیں یہ ایک انسانی پکار ہے۔

ہماری پالیسیاں کس کی حفاظت کر رہی ہیں؟ اور کس کو بے دخل؟

کیا ہم انصاف کے محافظ ہیں، یا محض ایک فارم پر دستخط کروانے کی مشین؟

امیگریشن وکیل بین اوسیریو جیسے ماہرین آج چیخ کر کہہ رہے ہیں: “اگر آپ کے پاس گرین کارڈ ہے اور ماضی میں کوئی قانونی لغزش ہوئی ہے، تو بہتر ہے کہ ملک نہ چھوڑیں۔ یا فوری شہریت لیں۔ کیونکہ اب واپسی کا وعدہ، کسی کے ہاتھ میں نہیں رہا۔” تو کیا یہ وہی امریکا ہے جو ایک دن مجسمۂ آزادی کی بلندی سے پکارا کرتا تھا:

“Give me your tired, your poor,

Your huddled masses yearning to breathe free…”

آج وہی مجسمہ خاموش ہے۔ اور اُس کی آنکھوں میں نمی ہے


اپنا تبصرہ لکھیں