خوابوں کی سرزمین پر پابندیوں کا پہرہ
مسلمان امیگرنٹس کے خواب ٹرمپ کے احکامات کی زد میں
تحریر: راجہ زاہد اختر خانزادہ
رات کے کسی سنسان لمحے میں جب کوئی مسلمان ملک یا پاکستان سے آنے والا طالبعلم خوابوں کے دیس، یعنی امریکہ کی کسی لائبریری میں سر جھکائے مستقبل کے لیے علم کا چراغ جلا رہا ہوتا ہے، تب اُسے یہ خبر ملتی ہو کہ اُس کی چند ماہ پرانی ایک سوشل میڈیا پوسٹ جس میں اُس نے غزہ کی تباہ شدہ گلیوں کا نوحہ لکھا تھا وہ اب اُس کے ویزا کی تجدید کے راستے میں رکاوٹ کی دیوار بن چکی ہے۔ یا گرین کارڈ پر یہاں کسی رہنے والے رہائشی جوکہ اپنے ملک میں آزادی اظہار کی رائے سے محروم تھا وہ اس ملک میں آکر محنت اور مشقت کرکے اس بات پر خوش تھا کہ وہ اب آذاد ہے اور اسکو تحریر اور تقریر کی مکمل آذادی ہے مگر یہ ایگزیکیٹو آڈر دیکھ کر اسپر کسطرح کا بم گرا ہوگا جس نے اپنے اس حق کا استعمال کیا تو اب اسپر ڈیپورٹیشن کی تلوار لٹک چکی ہے ایسے تمام لوگوں کے دلوں پر کیا گذر رہی ہے اسکا اندازہ وہی انسان لگا سکتا ہے جو اباس کشمکش میں خوابوں کے اس ملک میں اپنے شب و روز گذار رہا ہے۔
یہ کوئی افسانہ نہیں، بلکہ امریکہ میں جاری اُس نئی حقیقت کا عکس ہے، جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جاری کردہ تین ایگزیکٹو آرڈرز کے بعد نہ صرف امریکی اقدار کا چہرہ بدل رہا ہے، بلکہ مسلمانوں، طلبہ، محققین، اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس کے لیے ایک نئے امتحان کا آغاز بن چکا ہے اسطرح یہاں پر علم کی جستجو، جو کبھی عبادت تھی، اب مشتبہ عمل بن کر رہ گئی ہے۔ وہ ضمیر کی آواز، جو انسان کی سب سے قیمتی پکار ہوا کرتی تھی، اسکو یہاں جرم قرار دیا جارہا ہے۔وہ آزادیِ اظہار جوکہ امریکہ کو دنیا میں منفرد کرتی تھی اب محض اُن کے لیے مخصوص ہے جو ظلم دیکھ کر بھی چپ رہنا جانتے ہوں۔ میرا یہ کوئی خیالی فسانہ نہیں بلکہ امریکہ میں نافذ اُس نئی پالیسی کا عکس ہے جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تین ایگزیکٹو آرڈرز “کے سائے میں جنم لے چکا ہے۔
1. Combating Antisemitism
2. Additional Measures to Combat Antisemitism
3. Protecting the United States from Foreign Terrorists and Other National Security Threats
ایگزیکٹو آرڈر 1: “Combating Antisemitism” — خاموشی کی قیمت
اس حکم نامے کے تحت امریکہ کی جامعات کو پابند کیا گیا کہ وہ یہود دشمنی کے خلاف سخت ترین اقدامات کریں۔ بظاہر تو یہ نفرت کے خلاف ایک مثبت قدم ہے، لیکن اس کی تعریف کچھ یوں متعین کی گئی کہ اب اسرائیل پر تنقید، فلسطینی عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی، یا کسی جنگ زدہ بچے کی تصویر شیئر کرنا بھی “یہود دشمنی” کہلانے لگی ہے۔ اسطرح اگر ایک طالبعلم انسانی حقوق پر مبنی کوئی آواز بلند کرتا ہے، تو اُس کے خلاف امیگریشن، ویزا، یا تعلیمی ریکارڈ کی چھان بین شروع ہو سکتی ہے۔ یہاں سوال یہ نہیں کہ نفرت کے خلاف اقدامات کیوں کیے گئے، بلکہ سوال یہ ہے کہ “محض اختلاف رائے بھی نفرتکیسے بن گئی ہے ؟
ایگزیکٹو آرڈر 2: “Additional Measures to Combat Antisemitism” — دلوں کی تلاشی
2025 میں جاری ہونے والا دوسرا ایگزیکٹو آرڈر، پہلے سے بھی زیادہ سخت، اب صرف جامعات کو نہیں بلکہ فردِ واحد کو بھی نشانہ بناتا ہے۔ اب یو ایس سی آئی ایس (USCIS) یہ طے کرے گا کہ آیا کسی فرد کی سوشل میڈیا سرگرمیاں یہود دشمنی کے زمرے میں آتی ہیں یا نہیں۔ اگر آپ نے کسی ایسی تنظیم کا نام تک لیا، جسے امریکہ “دہشتگرد” قرار دیتا ہے ،جیسے حماس، حزب اللہ یا حوثی ، تو آپ کے گرین کارڈ کی درخواست مسترد ہو سکتی ہے۔ یہاں تک کہ ایک پرانا ری ٹویٹ، ایک تبصرہ، یا کسی احتجاج میں خاموش اور اسمیں شرکت بھی آپکی زندگی کا دھارا بدل سکتی ہے۔ اور اس جرم کی پاداش میں گرین کارڈ ہولڈر کا کارڈ منسوخی کے عمل سے بھی گذر سکتا ہے، اور اسکے لیئے عدالتی احکامات کی بھی ضرورت نہیں۔ گویا… اب پاسپورٹ کے ساتھ ضمیر کی چھان بین بھی ہوگی۔ دلوں کی تلاشی، پوسٹوں کی سزا، اور خیالات کی نگرانی ، یہ ہے آج کے امریکہ کی حقیقت۔
ایگزیکٹو آرڈر 3: “غیر ملکی دہشت گردوں سے ریاستہائے متحدہ کا تحفظ” – تحفظ یا تعصب؟
اس حکم نامے کے تحت مشرقِ وسطیٰ، جنوبی ایشیا، اور خصوصاً مسلم ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کو “ممکنہ خطرہ” کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ وہ افراد جو کئی برسوں سے امریکہ میں قانونی طور پر مقیم ہیں — جیسے طلبہ، پیشہ ور افراد، یا گرین کارڈ ہولڈرز — اب سخت جانچ پڑتال کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کا سفری ریکارڈ، مالی معاملات، وابستگیاں، حتیٰ کہ دور کے خاندانی تعلقات بھی اب قومی سلامتی کے تناظر میں پرکھے جا سکتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک پُرامن مسافر، تحقیق میں مصروف ایک طالب علم، یا اسپتال میں خدمات انجام دینے والا ایک ڈاکٹر بھی محض اپنے مذہب، نسل، یا ملکِ پیدائش کی بنیاد پر شبہے کے دائرے میں آ سکتا ہے۔ یہ حکم نامہ صرف حقیقی خطرات سے تحفظ کا دعویٰ نہیں کرتا بلکہ اس کے پردے میں تعصب، خوف، اور خاموش امتیاز کے دروازے بھی کھل جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بہت سے مسلم تارکینِ وطن اب اس ان کہی خوف کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں کہ اگلا نشانہ وہ خود ہو سکتے ہیں سوال یہ ہے کہ وہ خطرہ کیا ہے؟
یہ کہ آپ فلسطینی عوام کے قتل عام پر افسوس کیوں کرتے ہیں؟ یہ کہ آپ سوال کیوں اٹھاتے ہیں؟ یہ کہ آپ خاموش تماشائی بننے سے انکار کیوں نہیں کرتے ؟اب “پریوینٹیو امیگریشن کنٹرول” کے نام پر صرف شک کی بنیاد پر بھی کسی طالبعلم کو امریکہ سے نکال دینا ممکن ہو گیا ہے۔ امریکہ میں خطرہ اب وہ نہیں جو آپ عملی طور پر کرتے ہیں ،خطرہ اب یہ ہے کہ آپ جو کچھ سوچتے ہیں۔ اگرچہ صدر ٹرمپ کے ان ایگزیکیٹو آڈرز میں یا ان پالیسیوں میں کہیں بھی لفظ “مسلمان” استعمال نہیں ہوا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر فلسطینی کاز کی حمایت کرنے والے زیادہ تر نوجوان مسلمان ہی ہیں۔ اور اب ہزاروں مسلم طلبہ خود کو نشانے پر محسوس کر رہے ہیں یہ قانونی پیچیدگیاں ان کی تعلیم اور قیام کو خطرے میں ڈال رہی ہیں اسطرح امریکی سرکاری ایجنسیوں کے باخبر ذرائع کے مطابق اسوقت امریکہ میں مقیم تیس ہزار سے زائد مسلم تارکین وطن کو ممکنہ ملک بدری کا سامنا ہے جسکا حدف ٹرمپ انتظامیہ نے مذکورہ ایجنسیوں کو دیا ہے یہ پالیسیاں محض امیگریشن کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ امریکہ میں مسلمانوں کی شناخت کا بحران بن چکی ہیں۔ اس ضمن میں آپ ریاست کی زبان کو دیکھیں جو یو ایس سی آئی ایس کے پریس ریلیز میں بیان کی گئی ہے جسمیں کہا گیا ہے کہ “یہودیوں سے نفرت کرنے والوں کے لیے امریکہ میں کوئی جگہ نہیں” اسطرح شوشل میڈیاپوسٹیں اب پاسپورٹ سے زیادہ طاقتور بن گئی ہیں
حال ہی میں 9 اپریل 2025 کو USCIS کی جاری کردہ پریس ریلیز نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ اگر آپ نے ماضی میں اسرائیل پر تنقید کی ہے، یا کسی فلسطینی تنظیم کی حمایت کا تاثر دیا ہے، تو آپ کے لیے امریکہ کے دروازے بند ہو سکتے ہیں۔ اس ضمن میں محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی (DHS) کی اسسٹنٹ سیکرٹری برائے پبلک افیئرز، ٹریشیا میک لاگلن نے پریس ریلیز میں سخت الفاظ میں کہا: “جو افراد آزادی اظہار کا سہارا لے کر دہشتگردی یا نفرت کو فروغ دینا چاہتے ہیں، اُنہیں دوبارہ سوچنے کی ضرورت ہے۔”
یہ بیان اُس وقت آیا جب USCIS نے اعلان کیا کہ وہ ہزاروں امیگریشن درخواست گزاروں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی تفصیلی چھان بین کرے گا۔ اسطرح کبھی تعلیمی کارکردگی اور علمی مہارتوں کی بنیاد پر امریکہ کے تعلیمی اداروں میں داخلہ دیا جاتا تھا مگر آج سوشل میڈیا کی بنیاد پر انکار ہو رہا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب تیسری دنیا کے حکمرانوں کی طرح امریکہ کے کیمپس علم سے زیادہ خاموشی مانگنے لگے ہیں۔ اس پالیسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اب کسی طالبعلم کی تعلیمی قابلیت، تحقیقی کام، یا سماجی خدمات سے زیادہ اہم اس کا سوشل میڈیا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ بین القوامی طالب علم خاموشاذیت، اور غیر یقینی راستے کا شکار ہیں وہ تارکین وطن جو گرین کارڈ ہولڈرز ہیں وہ اگر پاکستانی یا مسلمان ہیں تو ان طلبہ کو جب یونیورسٹی میں یا امریکہ میں داخل ہونا ہوگا تو ساتھ اپنے آپ سے یہ سوال کرنا ہوگا کہ اگر میں نے اپنی رائے دی، تو کیا میرا ویزا منسوخ ہوجائے گا؟ میرا گرین کارڈ کہیں ریڈ کارڈ میں تو تبدیل نہیں ہوجائیگا۔ یہ صرف خوف نہیں ہے یہ شعور کی گلا گھونٹنے والی پالیسی ہے۔ایسی پالیسی جس میں علم کو بغاوت سمجھا جارہا ہے، اور سوال کرنے والے کو مجرم۔ اسوقت امریکہ بھر کے تعلیمی ادارے قانونی مشورے فراہم کر رہے ہیں، لیکن انکو بھی واضح نہیں کہ کس پوسٹ پر ویزا منسوخ ہو سکتا ہے۔ کیا “فری فلسطین” کہنا جرم ہے؟ کیا کسی شہید فلسطینی بچے کی تصویر شیئر کرنا دہشتگردی ہے؟ کیا سوال کرنا دشمنی ہے؟
امریکہ، جو کبھی آزادی اظہار، تنوع اور علمی تحقیق کا علمبردار تھا، آج خود اپنے بنائے اصولوں کو پامال کرتا دکھائی نظر آرہا ہے ۔
امریکہ میں آباد مسلم کمیونٹی میں گہری تشویش پائی جاتی ہے۔ مسلمانوں نے تو اس بار بڑے پیمانے پر ٹرمپ کو ووٹ دیئے مگر پھر بھی ایسا کیوں ہورہا ہے , اسوقت انسانی حقوق کی تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا تعلیم اب صرف امیروں کیلئے ہے اور یہ صرف خاموشوں کا حق ہے؟ کیا اس شور کو سننے والا کوئی ہے؟ کیا تعلیم اب صرف اُن کا حق ہے جو کچھ نہ کہیں؟ کیا امریکہ اب صرف اُنہیں قبول کرے گا جو ظلم کے خلاف خاموشی اختیار کریں؟ یا پھر… یہ خاموشی ایک دن خود امریکہ کو بھی سوالوں کے کٹہرے میں لا کھڑا کرے گی؟
علم، سوال، اظہار… کبھی امریکہ کی پہچان ہوا کرتے تھے۔ آج یہ تینوں چیزیں جرم اور خطرہ بن چکی ہیں، خاص طور پر اُن کے لیے جو مسلم شناخت رکھتے ہیں۔ یہ کہانی صرف ایک یا دو طلبہ کی نہیں، یہ اُس نئی پالیسی کا عکس ہے جو خاموشی کو انعام اور سچائی کو سزا بناتی ہے۔ ایک فلسطینی نژاد طالبعلم نے کہا: “ مجھے اس ملک نے تعلیم دی، سوچنے کا سلیقہ دیا… لیکن اب وہی سوچ میری سب سے بڑی دشمن بن چکی ہے۔” کیوں ؟
ٹرمپ انتظامیہ کے ان نئے ایگزیکٹو آرڈرز نے مسلمانوں کے لیے امریکہ کو ایک ایسا میدانِ امتحان بنا دیا ہے، جہاں خواب کی قیمت آزادیِ اظہار کی قربانی ہے اور شناخت کی تذلیل صرف خاموشی کا سودا ہے۔ اب اگر کوئی طالبعلم امریکہ آنے کا خواب دیکھتا ہے، تو اُسے علم کے ساتھ ساتھ خاموشی کا ہنر بھی سیکھنا ہوگا… کیونکہ یہاں اب صرف وہی محفوظ رہیگا جو ظلم کے خلاف کچھ نہ بولے کچھ نہ کہے اور کچھ نہ لکھے اور بقول شاعر
ہزاروں ظلم ہوں مظلوم پر تو چپ رہے دنیا
اگر مظلوم کچھ بولے تو دہشت گرد کہتی ہے
