امریکی حکومت کی نئی پالیسی: سوشل میڈیا پر یہودی مخالف مواد کی نگرانی اور امیگریشن درخواستوں پر سخت پابندیاں
رپورٹ: راجہ زاہد اختر خان زادہ
ٹیکساس: امریکی حکومت نے غیر ملکیوں کی امیگریشن درخواستوں پر نئی سخت پالیسی متعارف کراتے ہوئے سوشل میڈیا پر یہودی مخالف سرگرمیوں یا مواد کو امیگریشن کے فوائد کی منظوری یا مسترد کرنے میں اہم عنصر بنا دیا ہے۔ امریکی شہریت اور امیگریشن سروسز (USCIS) نے اعلان کیا ہے کہ اب سے وہ غیر ملکیوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا تفصیلی جائزہ لے گی تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا کسی فرد نے یہودی مخالف دہشت گردی، متشدد نظریات، یا دہشت گرد تنظیموں جیسے حماس، حزب اللہ، فلسطینی اسلامی جہاد یا انصار اللہ (حوثی) کی حمایت یا تشہیر کی ہے۔
یہ پالیسی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈرز کے تحت نافذ کی گئی ہے جن میں “Combating Antisemitism”، “Additional Measures to Combat Antisemitism” اور “Protecting the United States from Foreign Terrorists and Other National Security Threats” شامل ہیں۔ محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی (DHS) نے واضح کیا ہے کہ ان اقدامات کا مقصد امریکہ کو انتہا پسندوں اور دہشت گردوں سے محفوظ رکھنا ہے۔ DHS کی اسسٹنٹ سیکرٹری برائے پبلک افیئرز، ٹریشیا میک لاگلن نے کہا کہ “امریکہ میں ان افراد کے لیے کوئی جگہ نہیں جو یہودیوں کے خلاف نفرت اور تشدد کی حمایت کرتے ہیں، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے سے آئیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ آزادی اظہار کا سہارا لے کر دہشت گردی یا نفرت انگیزی کو فروغ دے سکتے ہیں، انہیں دوبارہ سوچنے کی ضرورت ہے۔”
یہ نئی پالیسی خاص طور پر ان افراد پر اثرانداز ہوگی جو قانونی مستقل رہائش (Green Card)، طلبہ ویزا یا دیگر امیگریشن فوائد کے لیے درخواست دے رہے ہیں، اور جن پر یہ شبہ ہو کہ وہ یہودی مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں یا ایسے تعلیمی اداروں سے وابستہ ہیں جہاں یہ سرگرمیاں فروغ پاتی ہیں۔ USCIS کے مطابق، یہ پالیسی فوراً نافذ ہو چکی ہے اور امیگریشن درخواستوں کا جائزہ لیتے وقت سوشل میڈیا پر موجود مواد کو ایک اہم منفی عنصر کے طور پر دیکھا جائے گا۔
اس پالیسی کے تحت امریکی حکومت نے نہ صرف سوشل میڈیا پر یہودی مخالف سرگرمیوں میں ملوث افراد کو نشانہ بنایا ہے بلکہ ان کے ویزے اور گرین کارڈز منسوخ کرنے کی حکمت عملی اپنائی ہے۔ یہ اقدامات نہ صرف امریکی قومی سلامتی کو تحفظ دینے کے لیے ہیں بلکہ ان کے ذریعے اظہار رائے کی آزادی کو بھی شدید طور پر محدود کیا گیا ہے، خاص طور پر ان افراد کے لیے جو غزہ کی موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
باخبر ذرائع کے مطابق، اس پالیسی کے ذریعے امریکہ میں قانونی طور پر مقیم 30,000 سے زائد مسلمان ملکوں کے تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ اگرچہ یہ پالیسی براہ راست مسلمانوں کو نشانہ نہیں بناتی، مگر اس کا اثر ان مسلم ممالک سے آنے والوں پر پڑے گا جو غزہ کی صورتحال پر اپنی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر یہودی مخالف سرگرمیوں کی نشاندہی کے بعد ان افراد کے ویزے اور دیگر امیگریشن فوائد ختم کیے جا سکتے ہیں، جس سے نہ صرف تعلیمی اداروں میں بلکہ گرین کارڈ پر قانونی طور رہنے والے مسلمانوں میں بھی خوف اور تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
اگرچہ امریکی حکومت نے اس پالیسی کو فوراً نافذ کر دیا ہے، مگر اس کے مستقبل کے اثرات پر امریکہ میں مقیم مسلمان اور بین الاقوامی طلبہ گہری تشویش کا سامنا کر رہے ہیں، اور قانونی پیچیدگیاں ان کے لیے ایک نیا چیلنج بن چکی ہیں۔