ایک سندھی کا شہید ذوالفقار علی بھٹو کے نام کھلا خط
تحریر: راجا زاہد اختر خانزادہ
از ایک سندھ واسی کی فریاد
محترم شہیدِ جمہوریت، قائدِ عوام، ذوالفقار علی بھٹو صاحب!
السلام علیکم!
جب میں یہ خط لکھ رہا ہوں، میرا دل بوجھل ہے، آنکھیں اشکبار ہیں، اور ذہن سوالات کے طوفان سے گزر رہا ہے۔ آپ کو ہم نے صرف ایک رہنما نہیں، ایک مسیحا سمجھا تھا۔ آپ کی للکار نے ایوب کے جبر کو چیلنج کیا، آپ کی تقریروں نے ہمیں خواب دیکھنا سکھائے، اور آپ کی قربانی نے ہمیں جمہوریت کا مفہوم سمجھایا۔ مگر آج، سندھ کے ہر باسی کی طرح میں بھی یہ سوال کرتا ہوں: کیا یہی تھا وہ پاکستان جس کا خواب آپ نے دیکھا تھا؟
سائیں، آپ نے ہمیں بتایا تھا کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ آپ نے کہا تھا، “ہم گھاس کھا لیں گے، مگر ایٹم بم بنائیں گے۔” ہم نے گھاس کھا لی، قربانیاں دیں، اپنے بچوں کو بھوکا سلا دیا، مگر آپ کے مشن سے وفاداری نہیں چھوڑی۔ مگر آج، ایٹمی طاقت بننے والا ملک اپنے ہی شہریوں کو انصاف دینے سے قاصر ہے۔ اور آپ کی اپنی جماعت، پیپلز پارٹی، جسے آپ نے اپنی جان دے کر زندہ رکھا، آج خود اقتدار پرستوں کے ہاتھوں یرغمال ہے۔
جناب بھٹو صاحب!
آپ کی شہادت کے بعد سندھ نے بہت صبر کیا۔ سائیں جی ایم سید نے جب سندھ کی خودمختاری کی بات کی تو ہم نے ان کی بات نہ مانی، کیونکہ ہمیں لگتا تھا کہ آپ کی پارٹی ہی ہمیں منزل تک پہنچائے گی۔ ہم نے “زندہ ہے بھٹو زندہ ہے” کا نعرہ لگا کر اپنی ہر محرومی پر صبر کر لیا۔ مگر آپ کی پارٹی کے وارثوں نے ہمیں مایوسیوں، بدحالیوں، اور غلامی کے سوا کچھ نہیں دیا۔
جن دنوں آپ کی بیٹی محترمہ بینظیر بھٹو کو شہید کیا گیا، ہم نے سوچا کہ شاید اب یہ قربانی بھی ایک نئی صبح کا آغاز کرے گی۔ مگر وہ صبح کبھی طلوع نہ ہوئی۔ ہمیں کہا گیا ووٹ دیکر بدلہ لیا جائے اور “ووٹ بدلے کا ہتھیار ہے”، اور ہم نے یہ بھی کیا ووٹ دیا اور بدلہ لیتے ہوئے آپکی پارٹی کو صدر اور وزیراعظم کے مسند تک پہنچا دیا مگر اس ووٹ کے بدلے ہمیں کیا ملا؟ سندھ جہاں آپکے نام پر چالیس سالوں سے حکومت قائم ہے وہاں لاڑکانہ جیسے شہر میں، جہاں آپ پیدا ہوئے، پینے کا صاف پانی تک نہیں۔، تھر میں بچے بھوک سے مرتے ہیں۔، کراچی میں سندھ کے بیٹے شناخت مانگتے پھرتے ہیں، زمینیں بااثر خاندانوں کے ہاتھوں میں گروی رکھی جا چکی ہیں۔، کسان قرضوں میں ڈوبے ہوئے ہیں، اور طالب علم روزگار کی تلاش میں خودکشیاں کر رہے ہیں۔ بھوک اور افلاس نے ہر طرف ڈیرے ڈال رکھے ہیں، لوگوں کو روزگار دینے کی بجائے خاندانوں کو خیرات وصول کرنے پر لگادیا ہے۔ اسطرح سب کچھ ہم نے برداشت کیا مگر آج ہم اس منزل پر آن کھڑے ہیں کہ ہمارے پاس اب آپکو دینے کیلئے کچھ بھی نہیں بچا مگر اب آپکی پارٹی ہم سے ہمارے دریا دان مانگ رہی ہے،
قائدِ عوام! آج آپ کی پارٹی ایک علامتی نام بن چکی ہے۔ نہ اس میں آپ کا وژن باقی رہا، نہ آپ کا انقلابی جوش۔ وہ پارٹی جو مزدوروں، کسانوں، طلبہ، اور مظلوموں کی نمائندہ تھی، آج سرمایہ داروں، ٹھیکیداروں، اور موروثی سیاستدانوں کے قدموں میں جھکی ہوئی ہے۔
کبھی سندھ نے آپ کو اپنا بیٹا کہا، اور آپ نے اسے ماں کا درجہ دیا۔ آج وہی ماں اپنے بیٹے کی راہ تک رہی ہے۔ اس کے نوجوان بیروزگاری، جہالت غربت میں سڑ رہے ہیں، یا سمندر میں ڈوبتے ہوئے یورپ جانے کی کوشش میں جان گنوا رہے ہیں۔
ہم کہاں جائیں بھٹو صاحب؟
کیا سندھ کا مقدر یہی تھا کہ وہ ہمیشہ قربانیاں دے اور بدلے میں محرومی سہے؟
کیا ہم ہمیشہ اپنے شہیدوں کی قبروں پر پھول چڑھاتے رہیں گے، مگر زندہ لوگوں کو قبر جیسی زندگی نصیب ہوگی؟
ہم آپ کی روح سے فریاد کرتے ہیں!
اے شہیدِ جمہوریت! اگر آپ ہمیں سن سکتے ہیں، تو ہمیں کوئی اشارہ دیں!
ہم ٹوٹ چکے ہیں، بکھر چکے ہیں، لیکن اب بھی امید ہے کہ آپ کی روح ہمیں پکارے گی۔ ہمیں وہ ولولہ واپس چاہیے جو آپ نے ایوب کے جبر کے خلاف دیا تھا، وہ اتحاد درکار ہے جو آپ نے بنگالی بھائیوں کے لیے محسوس کیا تھا، اور وہ بے مثال قربانی کا جذبہ جس نے آپ کو شہادت کے مقام پر پہنچایا وہی جذبہ جو ہمیں آج بھی زندہ رکھے ہوئے ہے۔
ہم نے آپ کے نظریے پر، آپ کے نام پر، اپنی زندگیاں وقف کر دیں۔
ہم نے آپ کا پرچم اٹھائے رکھا، ہر طوفان میں، ہر سازش کے خلاف، ہر زخم کے ساتھ!
مگر ہمیں بھی تو جینے کا حق ہے یہ حق جس کے لیے آپ نے اپنی جان دی!
ہم چاہتے ہیں کہ آپ کا نظریہ صرف کتابوں میں نہ رہے، بلکہ ہر دل کی دھڑکن بنے، ہر زبان کا نعرہ بنے۔ لیکن اب پورا سندھ پنڈی کے پھانسی گھاٹ پر اپنی شہادت کیلئے اپنا نمبر لیئے کھڑا ہے ، آج آپکا نعرہ لگاتے لگاتے ہم اپنی زمیں اپنے پانی اور اپنی حیات سب کچھ لیئے اسہی پھانسی گھاٹ پر کھڑے ہیں ، آپکی پارٹی جسکو آپکے نام پر آپکی شہادت کے بعد ووٹ دیئے وہ آج زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے آپکی پارٹی ہم سے دریا کا دان مانگ رہی ہے آج اگر سندھو دریا سوکھ گیا،
اگر سندھ ماں کا وجود مٹنے لگا،
تو نہ ہم رہیں گے، نہ ہمارا نشان،
نہ آپ کا یہ خواب، نہ ’جیئے بھٹو‘ کے وہ گرجتے نعرے۔
تو اے بھٹو شہید!
ہم آپ سے آخری بار پکار کر کہتے ہیں:
اب بھی اگر وقت ہے، تو ہماری رہنمائی کریں
ورنہ ہماری خاموشی تاریخ کی سب سے گہری چیخ بن جائے گی۔
والسلام،
ایک مایوس، مگر
وفادار سندھی