امریکی کانگریس میں فوجی قیادت پر پابندیوں کا بل: جمہوریت کی بحالی یا پاکستان کے خلاف سازش؟


امریکی کانگریس میں فوجی قیادت پر پابندیوں کا بل: جمہوریت کی بحالی یا پاکستان کے خلاف سازش؟

تحریر: راجہ زاہد اختر خانزادہ

پاکستان تحریک انصاف کے دوست خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں کہ امریکی کانگریس میں دونوں بڑی پارٹیوں کے اراکین کانگریس نے ایک نیا بل پیش کیا ہے، جو پاکستان کی فوجی قیادت، خاص طور پر آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور دیگر اعلیٰ حکام پر پابندیاں لگانے کی سفارش کرتا ہے۔ اس بل میں پاکستان میں جمہوریت کی بحالی اور سیاسی قیدیوں، جن میں عمران خان سرِفہرست ہیں، کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ اگر پاکستان حکومت نے ان مطالبات پر عمل نہ کیا، تو امریکی ویزا پابندیاں، معاشی اقدامات اور امداد میں کمی جیسے سخت اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ یہ بل جو دو امریکی کانگریس ممبران، جن میں ریپبلکن ولسن اور ڈیموکریٹ جمی پنیٹا نے پیش کیا ہے لیکن اگر حقیقت کو گہرائی سے سمجھا جائے تو تحریک انصاف کے دوستوں کی یہ خوشی جلد ہی مایوسی اور غم میں بدل سکتی ہے۔ واشنگٹن اور عالمی سیاست دراصل ایک شطرنج کے کھیل سے کم نہیں، جہاں ہر چال کے پیچھے کئی پیچیدہ عزائم اور مفادات چھپے ہوتے ہیں۔ امریکہ کی کانگریس میں پیش کیا جانے والا “پاکستان ڈیموکریسی ایکٹ” بل، جو بظاہر انسانی حقوق اور جمہوریت کے تحفظ کی بات کرتا ہے،  مگر سیاست کی شطرنج کے اس کھیل میں  ہر چال کے پیچھے کئی مقاصد پوشیدہ ہیں۔ اسلیئے اس بل کے پیچھے چھپے مقاصد چالوں اور اسکی گہرائی کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔ اس بل کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ یہ پاکستان کے اندرونی سیاسی بحران کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عالمی سطح پر ایک نئی حکمت عملی کو جنم دینے کی ایک کوشش بھی ہے جہاں ایک طرف یہ بل پاکستان کی فوجی قیادت پر پابندیوں کی بات کرتا ہے، تو وہیں دوسری طرف یہ سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائی کا مطالبہ بھی کرتا ہے۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیا یہ بل واقعی پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے لیے ہے یا پھر یہ ایک عالمی سازش کا حصہ ہے، جس کے پیچھے اسرائیل اور بھارت جیسے طاقتور ممالک کے مفادات پوشیدہ ہوسکتے ہیں؟ سیاسی شطرنج کی بساط پر یہ ایک نہ ختم ہونے والا کھیل جاری ہے جس میں سیاست، مفادات اور طاقت کے مہرے اپنی چالوں میں آگے بڑھ رہے ہیں اسطرح اس کھیل کے نتائج پاکستان کی تقدیر پر اثر انداز بھی  ہو سکتے ہیں۔ امریکہ جوکہ ہمیشہ خود اپنے آپکو  دنیا بھر میں جمہوریت اور انسانی حقوق کا محافظ بنا کر پیش کرتا رہا ہے، لیکن تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ واشنگٹن نے ہمیشہ اپنے اسٹریٹجک مفادات کو ترجیح دی ہے۔ چاہے وہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی غیر مشروط حمایت ہو یا لاطینی امریکہ میں اپنی مرضی کے آمر مسلط کرنا۔ پاکستان میں اس بل کے ذریعے جس جمہوریت کی بات کی جا رہی ہے، وہ درحقیقت ایک مخصوص سیاسی بیانیے کو تقویت دینے کی کوشش ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ واقعی پاکستان کی جمہوریت کے لیے ہے یا پھر ایک ایسا سیاسی حربہ ہے جس کا مقصد پاکستانی فوجی اداروں کو کمزور کر کے ملک کو اندرونی خلفشار میں مبتلا کرنا ہے؟ لیکن سوال یہ ہے کہ امریکہ کو اچانک پاکستان میں جمہوریت کی اتنی فکر کیوں کر لاحق ہو گئی؟ وہی امریکہ جس نے کئی دہائیوں تک پاکستان کی فوجی حکومتوں کی حمایت کی؟ اگر ہم تاریخ کے آئینے میں امریکہ کی دنیا بھر میں جمہوریت کی بحالی کی مہمات کو دیکھیں تو ہمیں ایک پیچیدہ اور متنازعہ حقیقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 1970 کی دہائی میں جب چلی میں سالواڈور الینڈے کی منتخب حکومت کو اُلٹنے کے لیے امریکہ نے مداخلت کی، تو یہ جمہوریت کی حمایت نہیں بلکہ ایک منتخب حکومت کی زبردستی تبدیلی تھی۔ پھر 2000 کی دہائی میں عرب بہار کے دوران، امریکہ نے مصر اور لیبیا میں اپنی مداخلت کی، جس کا مقصد جمہوریت کو فروغ دینا بتایا گیا، مگر اس کے نتیجے میں دونوں ممالک میں عدم استحکام اور خانہ جنگی کا آغاز ہوا۔ اور 2020 میں وینیزویلا میں خوان گوئیدو کی بغاوت کی حمایت، جو بالآخر ناکام ہوئی، ایک اور مثال ہے کہ جمہوریت کے فروغ کے دعووں کے پیچھے کبھی کبھار وہ مفادات چھپے ہوتے ہیں جو عالمی سطح پر طاقت کے توازن کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح یہ تمام واقعات اس بات کا غماز ہیں کہ جب بھی ‘جمہوریت’ کے نام پر مداخلت کی جاتی ہے، اس کے نتائج ہر بار ایک پیچیدہ سوالات اور تضادات کو جنم دیتے ہیں سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں یہ بل اسی طرز عمل کا تسلسل ہے؟ پاکستان میں ابھی وہ نسل بقد حیات ہے جس نے دیکھا کہ یہ وہی امریکہ ہے جس نے کئی دہائیوں تک پاکستانی فوجی حکومتوں کی حمایت کی، لیکن آج اچانک اسے پاکستان میں جمہوریت کی فکر کیونکر لاحق ہو گئی ہے ؟ گو کہ یہ بل عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرتا ہے، لیکن اس کے پیچھے امریکہ،اسرائیل، اور بھارت کے جیواسٹریٹجک مفادات کارفرما نظر آتے ہیں۔ امریکی کانگریس ممبران، نے اس بل کے ذریعہ پاکستان پر  امریکی ویزا پابندیاں، معاشی اقدامات اور امداد میں کمی جیسے سخت اقدامات کراناچاہتے ہیں۔ اس ضمن میں یہ جاننا ضروری ہے کہ اس بل کو پیش کرنے والے جو ولسن اور جمی پنیٹا کون ہیں اور ان کے پیچھے کون سے مالیاتی مفادات کارفرما ہیں؟ یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ بل پیش کرنے والے دونوں کانگریس ممبران امریکی اسرائیلی لابی (AIPAC) کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ جو ولسن نے ہمیشہ اسرائیل کی کھل کر حمایت کی ہے، اور اسرائیلی حکومت کے دفاع میں کئی بل پیش کر چکے ہیں۔ جو ولسن اسرائیلی نواز پالیسیوں کے سرگرم حامی ہیں اور انہوں نے ہمیشہ اسرائیل کے حق میں کانگریس میں ووٹ دیا ہے۔ 2024 کے انتخابات میں انہیں AIPAC (امریکن اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی) سے $133,000 سے زائد کی مالی امداد ملی۔ جمی پنیٹا انہیں بھی AIPAC اور دیگر اسرائیلی حمایت یافتہ تنظیموں سے $256,767 کی فنڈنگ ملی ہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ یہ دونوں قانون ساز، جو اسرائیل کی کھل کر حمایت کرتے ہیں، اچانک پاکستان کی جمہوریت کے لیے اتنے فکر مند ہو گئے؟ یا پھر یہ اسرائیل اور بھارت کی مشترکہ کوشش ہے کہ پاکستان کی فوجی اور سیاسی قوتوں کو کمزور کر کے اسے عالمی سطح پر بے دست و پا کر دیا جائے؟ یہ بات صاف ظاہر کرتی ہے کہ جو ولسن اور جمی پینیٹا کے اقدامات محض انسانی حقوق کے لیے نہیں بلکہ سیاسی و جغرافیائی مقاصد کے تحت ہیں۔ یہ پاکستان پر دباؤ ڈالنے، اسرائیل اور بھارت کے مفادات کو بڑھانے، اور پاکستانی فوج کے کردار کو کمزور کرنے کی ایک بڑی عالمی چال کا حصہ معلوم ہوتی ہے  بھارتی لابی کا ممکنہ کردار بھی اس بل میں اہمیت رکھتا ہے۔ بھارت کی طرف سے “انسٹی ٹیوٹ آف نیو امریکہ” جیسی لابیاں بھی واشنگٹن میں پاکستان مخالف بیانیے کو فروغ دیتی ہیں۔ اگرچہ اس بل میں براہ راست بھارتی فنڈنگ کا ذکر نہیں، لیکن اسرائیل اور بھارت کے مشترکہ مفادات پاکستان کو علاقائی سطح پر کمزور کرنے میں ہم آہنگ ہو سکتے ہیں۔  بل کی منظوری کے امکانات پر بات کی جائے تو کچھ عوامل مخالفت پیدا کرتے ہیں۔ امریکہ پاکستان کو افغانستان میں اپنا اتحادی سمجھتا ہے، اور حال ہی میں پاکستان نے ISIS-K کے ایک ممبر کو امریکہ کے حوالے کیا، جسے ٹرمپ نے سراہا۔ کچھ تجزیہ کاروں، جیسے مائیکل کگل مین، کا کہنا ہے کہ یہ بل “علامتی” ہے اور اس کے پاس ہونے کے امکانات کم ہیں۔ یہ بل امریکی قانون سازی کے کئی مراحل سے گزرے گا۔ سب سے پہلے، یہ ہاؤس فارن افیئرز کمیٹی میں پیش ہوگا، جو امریکی خارجہ پالیسی کے تمام معاملات کو دیکھتی ہے اور کسی ملک کے خلاف پابندیوں یا اقدامات پر سفارش دیتی ہے۔ اس کے بعد یہ ہاؤس جوڈیشری کمیٹی میں جائے گا، جو انسانی حقوق اور عالمی قوانین کے تناظر میں اس پر بحث کرے گی۔ اگر یہاں سے منظوری مل گئی، تو پھر یہ ایوانِ نمائندگان میں ووٹنگ کے لیے پیش کیا جائے گا۔ اگر ایوانِ نمائندگان نے بھی منظوری دے دی، تو پھر یہ سینیٹ میں جائے گا، جہاں سینیٹ میں پیشی اور ووٹنگ کے بعد، اگر سینیٹ نے بھی اس کی منظوری دے دی، تو پھر یہ صدر کے دستخط کے لیے بھیجا جائے گا۔ اور، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دستخط کے بعد یہ بل قانون بن سکتا ہے۔

یہ بات قابل غور ہے کہ امریکہ خود پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات خراب کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا، لہٰذا اس بل کے مکمل طور پر منظور ہونے کا امکان بہت کم ہیں۔ تاہم، اگر یہ بل کسی بھی سطح پر منظور ہوتا ہے، تو اس کے پاکستان پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ مذکورہ بل پاکستان کے لیے کئی چیلنجز پیدا کر سکتا ہے۔ اس بل کے ذریعے پاکستان کی فوج پر بین الاقوامی دباؤ ڈالا جائے گا تاکہ وہ کمزور ہو جائے۔ عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرکے ملک میں مزید سیاسی تنازعہ کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ اگر امریکہ نے واقعی پابندیاں عائد کر دیں تو پاکستان کی عالمی مالیاتی اداروں سے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں، اور سرمایہ کاری میں کمی آسکتی ہے۔ گو کہ یہ بل ایک بڑی اسٹریٹجک چال کا حصہ معلوم ہوتا ہے، جس میں تین بڑی طاقتیں شامل ہیں۔ بھارت ہمیشہ سے پاکستان کی فوج کو کمزور کرنا چاہتا ہے، اور اس بل کے ذریعے امریکہ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ اسرائیل پاکستان کے ایٹمی اثاثوں سے خطرہ محسوس کرتا ہے اور پاکستان میں سیاسی عدم استحکام دیکھنا چاہتا ہے۔ امریکہ چین کے ساتھ پاکستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات اور سی پیک منصوبے کو دیکھتے ہوئے پاکستان میں اپنی مرضی کی حکومت دیکھنا چاہتا ہے۔ اس ضمن میں اس بل پر  سفارتی امور کے ماہرین نے ملے جھلے ردعمل کا اظہار کیا ہے , مائیکل کگل مین کا کہنا ہے کہ یہ بل امریکہ اور پاکستان کے درمیان کشیدہ تعلقات کا ایک اور سبب بن سکتا ہے۔ حالیہ برسوں میں پاکستان نے افغانستان میں طالبان کے خلاف کارروائی کی حمایت کی ہے، اور امریکہ کی طرف سے اس تعاون کی قدردانی کی جاتی رہی ہے۔ انکے مطابق اس بل کا پیش کیا جانا، دراصل ایک علامتی اقدام ہو سکتا ہے، جس کے پاس یا منظور ہونے کے امکانات کم ہیں۔ تاہم، یہ حقیقت ہے کہ امریکہ پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے ایسے اقدامات اٹھاتا رہا ہے۔ ایڈورڈ لُو کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جانب سے پاکستان پر جمہوریت کے فروغ کے لیے دباؤ ڈالنا ایک پرانی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اگرچہ اس بل میں انسانی حقوق کی بات کی جا رہی ہے، لیکن اس کے پیچھے امریکی مفادات کا واضح اجاگر ہونا ضروری ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کا مطلب صرف انتخابات اور سیاسی عمل کی آزادی نہیں بلکہ اسے ایک ایسے جغرافیائی سیاسی منظرنامے کے تحت دیکھنا ہوگا جہاں امریکہ کو اپنے اسٹریٹجک مفادات کو تحفظ دینا ہے۔ جینیفر ہارٹ مین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے لیے امریکہ کا یہ اقدام کئی مختلف عوامل کی بنیاد پر ہو سکتا ہے۔ یہ ممکنہ طور پر امریکہ کے بھارت کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات اور پاکستان کے چین کے ساتھ گہرے ہوتے ہوئے روابط کے اثرات کا ردعمل ہو سکتا ہے۔ درحقیقت، امریکہ کا یہ اقدام عالمی سطح پر پاکستان کی فوجی طاقت کو کمزور کرنے اور اس کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کی کوشش معلوم ہوتی ہے۔ ڈین ہاروی کا کہنا ہے کہ اگرچہ امریکہ کی جانب سے یہ بل پیش کیا گیا ہے، تاہم پاکستان کے ساتھ اس کی مضبوط اسٹریٹجک تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بل کا عملی طور پر نفاذ مشکل نظر آتا ہے۔ پاکستان امریکہ کا اہم اتحادی ہے، اور عالمی سطح پر اس کے اسٹریٹجک مفادات پاکستان کے ساتھ اتحاد میں ہیں۔ ایسے میں اس بل کے مکمل طور پر منظور ہونے کا امکان کم ہے، اور یہ محض ایک سفارتی دباؤ ڈالنے کا حربہ ہو سکتا ہے۔

پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کے لیے امریکہ کا یہ اقدام ایک پیچیدہ عالمی منظرنامے کا حصہ ہے، جہاں اسٹریٹجک مفادات، سفارتی تعلقات اور عالمی طاقتوں کے مفادات کے بیچ توازن برقرار رکھنا ضروری ہے۔ اگرچہ اس بل کے منظور ہونے کے امکانات کم ہیں، مگر یہ ایک واضح پیغام ہے کہ امریکہ پاکستان سے توقع رکھتا ہے کہ وہ جمہوری عمل کو مستحکم کرنے اور انسانی حقوق کا احترام کرنے کے لیے مزید اقدامات کرے۔ ایسے میں پاکستان کو اپنے داخلی معاملات اور عالمی تعلقات میں ایک محتاط حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی تاکہ دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید تناؤ نہ آئے


اپنا تبصرہ لکھیں