پاکستانی وفد کا اسرائیل دورہ: حقیقت، سازش یا تعلقات کی نئی راہ؟


  • پاکستانی وفد کا اسرائیل دورہ: حقیقت، سازش یا تعلقات کی نئی راہ؟

تحریر: راجہ زاہد اختر خانزادہ

دنیا ایک ایسی رنگین کہانی ہے جس میں ہر ملک، ہر قوم، اور ہر فرد ایک کردار ادا کر رہا ہے۔ کچھ کردار روشنی میں ہیں، کچھ اندھیروں میں چھپے ہیں، اور کچھ پردوں کے پیچھے خاموش تماشائی ہیں۔ تاریخ، سیاست، اور انسانی تعلقات کا یہ پیچیدہ تانا بانا ہمیں بار بار سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہم جو کچھ جانتے ہیں، کیا وہ حقیقت ہے یا محض کہانیوں کا ایک جال؟ تاریخ کے دامن میں کئی ایسے راز چھپے ہوتے ہیں جو وقت کے ساتھ آشکار ہوتے ہیں، مگر بعض اوقات کچھ فیصلے اور اقدامات انسان کو مخمصے میں ڈال دیتے ہیں۔ پاکستان کے گیارہ رکنی وفد کا اسرائیل کا دورہ ایک ایسا ہی معمہ بن چکا ہے، جس کے مختلف پہلو زیر بحث ہیں۔ یہ دورہ، جو اسرائیلی اخبار “یروشلم پوسٹ” اور “اسرائیل ہیوم” کے مطابق مارچ کے وسط میں ہوا، کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ پاکستان کے گیارہ رکنی وفد جس نے یہ دورہ کیا ، اسمیں میں صحافی، دستاویزی فلم ساز اور سول سوسائٹی کے افراد شامل تھے، جوکہ اسرائیل کے ہولوکاسٹ میوزیم، 7 اکتوبر 2023 کے حملوں کے مقامات اور دیگر ثقافتی و تاریخی مراکز گیا۔ اس کا اہتمام “شراکہ” نامی غیر منافع بخش تنظیم نے کیا، جو مشرق وسطیٰ میں بین المذاہب اور بین الثقافتی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے کام کرتی ہے۔ اس دورے کے پس پردہ مقصد کو مثبت نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ ایک بین الاقوامی مکالمے کی کوشش تھی، جہاں پاکستانی وفد کو اسرائیل کے معاشرتی، ثقافتی اور تاریخی پہلوؤں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ مگر حقیقت کا ایک اور رخ بھی ہے، جو زیادہ پیچیدہ اور پراسرار معلوم ہوتا ہے۔ گو کہ پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات ہمیشہ ایک نہ ختم ہونے والے تنازعے کی صورت میں رہے ہیں اور پاکستان کی سرزمین پر اسرائیل ہمیشہ ایک حساس موضوع رہا ہے اسرائیل کو پاکستان نے کبھی تسلیم نہیں کیا، اور پاکستانی پاسپورٹ پر آج بھی یہ جملہ درج ہے: “یہ پاسپورٹ دنیا کے تمام ممالک کے لیے قابلِ استعمال ہے، سوائے اسرائیل کے۔” لیکن سوال یہ ہے کہ اسرائیل نے پاکستان کا کیا بگاڑا؟ اور پاکستان کا اسرائیل کے ساتھ کیا معاملہ ہے؟ ریاست پاکستان نے قیام کے وقت سے ہی فلسطین کی حمایت میں مؤقف اختیار کیا اور اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔ ایسے میں یہ سوال فطری طور پر پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی صحافیوں اور سول سوسائٹی کے افراد کا یہ دورہ کس ایجنڈے کا حصہ تھا؟ کیا یہ محض ایک تعلیمی اور ثقافتی دورہ تھا، یا پھر یہ پس پردہ کوئی بڑی اسٹریٹیجک تبدیلی کی تیاری کا اشارہ تھا؟پاکستان میں ہمیشہ سے عوامی جذبات اسرائیل کے خلاف رہے ہیں، جس کی بنیاد مذہبی اور سیاسی محرکات پر مبنی ہے۔ مگر بعض سیاسی اور غیر سیاسی قوتیں وقتاً فوقتاً اسرائیل کے ساتھ پس پردہ روابط استوار کرنے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ 2020 میں بھی اسرائیلی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ اس وقت  کے وزیراعظم عمران خان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے اسرائیلی حکام سے ملاقات کی اور اسرائیل کا دورہ کیا، جبکہ اسرائیلی اخبار ’اسرائیل ہایوم‘ میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی برائے بیرونِ ملک پاکستانی زلفی بخاری نے مبینہ طور پر اسرائیل کا خفیہ دورہ کیا تھا اور اسوقت کے وزیرِ اعظم عمران خان اور آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کا پیغام اسرائیلی اہلکاروں اور موساد کے سربراہ تک پہنچایا تھا اگرچہ اسوقت کی حکومت نے اور زلفی بخاری نے بھی اس کی تردید کی۔ تاہم اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ریاستی سطح پر بھی کچھ حلقے اسرائیل سے روابط کے حامی ہیں، مگر مذہبی و عوامی دباؤ کے پیش نظر وہ کھل کر ایسا نہیں کر سکتے۔

ایک غیر معمولی دورہ

وفد کے اراکین کا کہنا تھا کہ وہ اسرائیلی عوام اور ثقافت کو قریب سے سمجھنا چاہتے تھے،انکا کہنا تھا کہ  پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات معمول پر آسکتے ہیں، لیکن ’انتہا پسند اسلامی گروپوں‘ کی مخالفت درپیش ہوگی، اور یہ عمل 10 سے 20 سال میں مکمل ہو سکتا ہے پاکستانی دستاویزی فلم ساز سبین آغا، جو اس وفد میں شامل تھیں، نے کہا: میں ہمیشہ اسرائیل آنا چاہتی تھی تاکہ میرے ذہن میں موجود تمام سوالات کے جوابات تلاش کروں اور اس الجھن کو دور کروں جو میرا ملک اور مسلم دنیا مجھے یہودیوں کے بارے میں بتاتے رہی ہیں۔‘ انکا مزید کہنا تھا کہ

“میں جاننا چاہتی تھی کہ اسرائیل نے پاکستان کے ساتھ کیا کیا؟ اور جب میں وہاں پہنچی، تو میں نے پایا کہ وہ بھی ہماری طرح عام انسان ہیں، جن کی اپنی ثقافت، اپنی تاریخ، اور اپنے خواب ہیں۔”

یہ بیان کسی حد تک نئی سوچ کو جنم دیتا ہے۔ کیا واقعی ہمیں ہر چیز کو مذہب اور سیاست کے چشمے سے دیکھنا چاہیے؟ کیا لوگوں سے ملنے، ان سے بات کرنے، اور ان کی حقیقت جاننے کا حق ہم سے چھین لیا گیا ہے؟ وفد میں شامل پاکستانی فلمساز سبین آغا کے بیانات بھی کئی زاویے رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اسرائیل کے حوالے سے پاکستان میں موجود بیانیے سے ہٹ کر حقیقت کو سمجھنا چاہتی تھیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسرائیلی بھی ہماری طرح عام انسان ہیں، جن کی اپنی تہذیب، ثقافت اور تاریخ ہے۔ ان کے مطابق جب انہوں نے لوگوں کو بتایا کہ وہ پاکستان سے ہیں تو انہیں غیر متوقع گرمجوشی ملی۔ یہ بات کسی حد تک درست ہو سکتی ہے کہ اسرائیلی عوام بھی اپنی زندگی کے روز و شب گزار رہے ہیں، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ دورہ پاکستانی عوام کے جذبات کے برعکس نہیں تھا؟

تاہم یہ دورہ کئی سوالات کو جنم دیتا ہے، اور ہر سوال کے دو رخ ہیں: یہ “ابھی تک” شاید ایک اہم نکتہ ہے۔ کیونکہ عالمی سیاست میں کچھ بھی مستقل نہیں ہوتا۔ اگر سعودی عرب اسرائیل سے تعلقات بہتر کر سکتا ہے، اگر عرب ممالک اپنے تعلقات معمول پر لا سکتے ہیں، تو کیا پاکستان کے لیے بھی ایسا ممکن ہے؟ اگر ہم اسرائیل اور پاکستان کے تعلقات کا موازنہ دیگر مسلم ممالک جیسے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے کریں، جسمیں  متحدہ عرب امارات نے تو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرلیے ہیں۔ اسپر وفد کے بعض ارکان نے بھی کہا کہ اگر سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات نارملائز کرتا ہے تو پاکستان کے لیے بھی ایسا کرنا آسان ہو جائے گا۔ یہ بات کسی حد تک ممکن نظر آتی ہے کیونکہ پاکستان ہمیشہ سے سعودی عرب کی خارجہ پالیسی کو ایک خاص زاویے سے دیکھتا ہے۔ مگر پاکستان کی داخلی صورتحال، مذہبی جماعتوں اور عوامی جذبات کو دیکھتے ہوئے ایسا فوری طور پر ممکن نہیں لگتا۔

یہاں ایک اور سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اس دورے کے پیچھے اصل طاقتیں کون سی تھیں؟ کیا یہ دورہ صرف ایک غیر سرکاری تنظیم کی کوشش تھی، یا اس کے پیچھے عالمی اسٹیبلشمنٹ کا کوئی منصوبہ تھا؟ پاکستان کی حکومت نے خود کو اس معاملے سے الگ رکھا اس بارے میں پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے ایک محتاط ردِعمل دیا، یہ کہتے ہوئے کہ وہ اس دورے کے بارے میں مزید معلومات اکٹھی کر رہی ہے، اور پاکستان کا اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا موقف “ابھی تک” تبدیل نہیں ہوا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسا کوئی دورہ حکومتی اداروں کے علم میں لائے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا۔

پاکستان میں یہ دورہ تنازعہ کا شکار ہوا۔ کچھ لوگوں نے اسے ایک “غداری” قرار دیا، تو کچھ نے اسے “حقیقت کا سامنا کرنے کا ایک مثبت قدم” کہا۔

ماضی میں بھی امریکی و مغربی لابی کی جانب سے کئی بار اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا اور عالمی طاقتیں ہمیشہ سے ہی پاکستان کو اپنے ایجنڈے کے مطابق چلانے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔۔ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق، اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے یہ ایک آزمائشی قدم ہو سکتا ہے، تاکہ عوامی ردعمل کو جانچا جا سکے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عالمی سیاست میں ایسے اقدامات بغیر کسی طویل مدتی منصوبے کے نہیں کیے جاتے۔  اگر اس معاملے کو وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو اس کے مثبت اور منفی دونوں پہلو نمایاں ہوتے ہیں۔ ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ اگر ہم کھلے ذہن کے ساتھ مختلف اقوام اور ثقافتوں کو سمجھنے کی کوشش کریں، تو شاید ہمیں اندازہ ہو کہ جنگ اور نفرت کے پیچھے بھی انسان ہی بستے ہیں۔ دنیا میں ترقی کا دار و مدار اب ٹیکنالوجی، زراعت، اور سائبر سیکیورٹی پر ہے، اور اسرائیل ان شعبوں میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ کیا پاکستان اسرائیل کی ان کامیابیوں سے کچھ سیکھ سکتا ہے؟ اگر دوطرفہ مکالمے کے دروازے کھلیں تو شاید پاکستانی عوام کو غیر جانبداری سے سوچنے اور عالمی تناظر میں معاملات کو دیکھنے کا موقع بھی ملے۔

دوسری طرف، اس معاملے کے کچھ منفی پہلو بھی ہیں جو نظر انداز نہیں کیے جا سکتے۔ پاکستان میں عوامی جذبات فلسطین کے ساتھ گہرے طور پر جڑے ہوئے ہیں، ایسے کسی بھی دورے سے عوام میں غصہ اور تقسیم پیدا ہو سکتی ہے۔ اگر ریاستی پالیسی کے برعکس افراد اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کریں، تو یہ اندرونی خلفشار کو جنم دے سکتا ہے اور قومی پالیسی میں تضاد پیدا ہو سکتا ہے۔پاکستانی عوام ہمیشہ سے فلسطینی جدوجہد کے حامی رہے ہیں، اور اسرائیل کے خلاف جو بیانیہ موجود ہے، وہ کسی ایک حکومت یا گروہ کا پیدا کردہ نہیں بلکہ تاریخی اور مذہبی بنیادوں پر قائم ہے۔ ایسے میں ایک مخصوص طبقے کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی خواہش عوامی جذبات سے متصادم معلوم ہوتی ہے۔ یہ سوال بھی قابل غور ہے کہ کیا پاکستان واقعی اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے لیے تیار ہے، یا یہ صرف ایک مخصوص حلقے کا ایجنڈا ہے؟ یہ سوال وقت کے سینے میں دفن ہے کہ یہ دورہ ایک دروازہ کھول رہا ہے یا ایک بھنور میں دھکیل رہا ہے؟ کیا یہ قدم ایک نئے سورج کی روشنی میں طلوع ہونے والی راہ ہے یا اندھیروں میں بھٹکنے والا ایک اور سایہ؟ تاریخ کے صفحات پر کچھ فیصلے روشن سطروں کی صورت ثبت ہوتے ہیں اور کچھ فقط دھندلے نقوش کی طرح وقت کے جھمیلوں میں کھو جاتے ہیں۔ پاکستان اور اسرائیل کا یہ غیر علانیہ مکالمہ بھی شاید انہی پیچیدہ سوالوں میں سے ایک ہے، جس کے جواب کا انتظار تاریخ کی گلیوں میں کیا جائے گا۔ یہ دنیا ایک بازار ہے، جہاں قومی مفادات کی بولیاں لگتی ہیں، تعلقات کے سودے ہوتے ہیں، اور حکمت عملیوں کے نقاب میں پوشیدہ عزائم اپنا چہرہ دکھاتے ہیں۔ کچھ رشتے محبت کی بنیاد پر استوار ہوتے ہیں، کچھ نفرت کی اینٹوں سے چُنے جاتے ہیں، اور کچھ محض وقت کے محتاج ہوتے ہیں ایسے ہی جیسے دریا کے بہاؤ میں بہتی کوئی بےنام کشتی، جسے نہ کنارہ معلوم ہو اور نہ ہی منزل کی خبر۔ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان یہ خفیہ ملاقاتیں، یہ بےنام اشارے، یہ غیر محسوس سفارتی حرکات… یہ سب کسی نامعلوم کہانی کے بکھرے ہوئے اوراق ہیں، جنہیں وقت ہی ترتیب دے گا۔

لیکن سوال یہ ہے کہ اگر یہ دورہ واقعی تہذیبی مکالمے اور ثقافتی تبادلے کا آغاز تھا، تو پھر اسے خفیہ رکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اگر نیت صاف تھی تو راستے دھندلائے ہوئے کیوں نظر آتے ہیں؟ شاید اس ملاقات کے پس پردہ وہ قوتیں سرگرم تھیں جو روشنی میں رہ کر فیصلے نہیں کرتیں بلکہ سائے میں رہ کر تاریخ کے دھارے بدلتی ہیں۔ ایک خفیہ ملاقات ایک ہزار سوالات کو جنم دیتی ہے، اور ان سوالات کے بوجھ تلے اکثر سچائی دب کر رہ جاتی ہے۔

یہ معاملہ صرف سفارت کاری یا قومی مفادات کا نہیں، بلکہ اس نازک احساس کا بھی ہے جو پاکستان کے عوام کے دل میں فلسطین کے لیے بستا ہے۔ وہ جذبات جو لہو کی سرخی میں لپٹے ہیں، وہ کہانیاں جو مظلومیت کی سیاہی سے لکھی گئی ہیں، ان کے بیچ یہ تعلقات کس کروٹ بیٹھیں گے؟ کیا یہ قدم پاکستان کی سیاست، مذہب اور خارجہ پالیسی میں ایک بھونچال پیدا کرے گا، یا وقت کے دھندلکوں میں گم ہو جائے گا؟ یہ سوال آج کا نہیں، بلکہ آنے والے کل کا ہے، اور اس کا جواب صرف وقت ہی دے سکتا ہے۔


اپنا تبصرہ لکھیں