ٹرمپ کا اظہار تشکر ، پی ٹی آئی کی امریکہ میں لابنگ: ڈالروں کی بارش کہاں گری؟
تجزیہ: راجہ زاہد اختر خانزادہ
وقت کا پہیہ تیزی سے گھوم رہا ہے، لیکن کچھ سوالات ہمیشہ اپنی جگہ قائم رہتے ہیں، جیسے کہ ایک سراب، جو نظر آتا ہے مگر ہاتھ نہیں آتا۔ جب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حامیوں نے امریکہ میں لابنگ کی مہم شروع کی تھی، تو امیدوں کے چراغ جلائے گئے تھے۔ خواب بیچے گئے، بیانیہ تراشا گیا، اور دعویٰ کیا گیا کہ امریکی پالیسی کو موڑ کر عمران خان کے حق میں کر دیا جائے گا۔ مگر آج، جب حقیقت کی تلخ دھوپ اس بیانیے پر پڑی، تو سب کچھ دھندلا گیا۔ یہ کوئی پرانی بات نہیں کہ جب عمران خان کی حکومت کا تختہ الٹایا گیا، تو پی ٹی آئی کے امریکہ میں موجود حمایتیوں نے شور مچایا کہ یہ سب کچھ امریکی اسٹیبلشمنٹ اور پاکستانی فوج کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے۔ “سازش” کا بیانیہ اتنا مضبوط کر دیا گیا کہ پی ٹی آئی کے کارکنان امریکہ میں بڑے پیمانے پر احتجاج کرنے لگے۔ واشنگٹن میں سفارت خانے کے باہر مظاہرے ہوئے، لابنگ فرموں کی خدمات حاصل کی گئیں، اور چندہ مہمات کا آغاز کیا گیا۔ کئی ماہ تک دعویٰ کیا جاتا رہا کہ امریکہ میں پاکستانی سفارت خانے اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف لابنگ ہو رہی ہے، کانگریس کے ممبران سے ملاقاتیں ہو رہی ہیں، اور واشنگٹن کی پالیسی کو پی ٹی آئی کے حق میں موڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس مقصد کے لیے لاکھوں ڈالر پاکستانی امریکن کمیونٹی سے اکٹھے کیے گئے، اس بات کے کچھ آثار اسوقت نظر آچکے تھے جب کیپٹل ہل میں ایک پروگرام مرتب کیا گیا تو صرف چند گنتی کے اراکین کانگریس اس پروگرام میں شریک ہوئے، مگر پھر بھی کارکنوں کو سبز باغ دکھائے گئے اور آج جب حقیقت سامنے آئی تو نظر آیا کہ اس لابنگ کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
کانگریس میں ٹرمپ کی تقریر نے ثابت کر دیا کہ امریکہ کی حکومت اب بھی پاکستانی حکومت اور فوج کے ساتھ کھڑی ہے۔ ٹرمپ نے اپنے خطاب میں واضح طور پر پاکستان کی حکومت کا شکریہ ادا کیا، جو اس وقت عسکری اداروں کے تعاون سے چل رہی ہے۔ اگر پی ٹی آئی کی لابنگ واقعی کارآمد ہوتی، تو آج کم از کم امریکہ میں پاکستان کے عسکری اداروں کے خلاف کسی قسم کا سخت بیان ضرور آتا۔ مگر ہوا اس کے برعکس۔ یہ وہی ٹرمپ ہے جو کبھی پاکستان پر الزامات کی بارش کرتے تھے اب کھل کر پاکستان کی حکومت کا شکریہ ادا کر رہے ہیں۔ امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں انہوں نے پاکستانی عسکری اداروں کے کردار کو سراہا، ٹرمپ نے خاص طور پر افغانستان میں امریکی فوجیوں پر ہونے والے خودکش حملے کے ماسٹر مائنڈ کی گرفتاری میں پاکستان کے کردار اور مدد کی تعریف کی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر میں پاکستان کا شکریہ ادا کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ وہی ٹرمپ ہیں جو افغانستان سے امریکی انخلا پر بائیڈن انتظامیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے، وہی ٹرمپ جو ایک زمانے میں پاکستان کی سیکیورٹی پالیسیوں پر انگلیاں اٹھاتے تھے۔ اب اچانک ان کا پاکستان کی حکومت کی تعریف کرنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ امریکی موقف میں ایک بڑی تبدیلی آ رہی ہے۔یہ ایک بڑا سفارتی اشارہ ہے کہ امریکہ پاکستان کے عسکری اداروں کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کر رہا ہے۔ ٹرمپ کے اس بیان نے ثابت کر دیا کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کو محض جذباتی بیانیے سے نہیں بدلا جا سکتا۔ سوال یہ ہے کہ اگر پی ٹی آئی کی امریکہ میں لابنگ واقعی کامیاب ہوتی، تو کیا آج ٹرمپ کا یہ لہجہ ایسا ہوتا؟ اگر پی ٹی آئی امریکہ کے رہنماؤں نے جو دعوے کیے تھے وہ سچ ہوتے، تو کیا آج بھی امریکہ پاکستان کے عسکری اداروں کے ساتھ کھڑا ہوتا؟ یہ وہی لمحہ ہے جو ہر کارکن کے ذہن میں بجلی کی طرح کوندنا چاہیے کہ وہ لاکھوں ڈالر، جو پاکستانی امریکیوں سے لابنگ کے نام پر جمع کیے گئے، کہاں گئے؟ کہاں ہیں وہ سفارتی کامیابیاں جن کے سبز باغ دکھائے گئے تھے؟ اگر واقعی پی ٹی آئی کی امریکہ میں سیاسی حکمتِ عملی مؤثر ہوتی، تو آج پاکستان کے عسکری ادارے واشنگٹن کی نظروں میں مزید طاقتور کیوں دکھائی دیتے؟ یہ پہلا موقع نہیں کہ پی ٹی آئی کی امریکہ میں قیادت مالی بے ضابطگیوں کے الزامات پر خاموشی کے صحرا میں کھو چکی ہے، جبکہ کارکنوں کی جانب سے سوالات کی آندھی مسلسل اٹھ رہی ہے۔ اس سے قبل بھی کئی بار رپورٹس منظرعام پر آ چکی ہیں کہ پی ٹی آئی کے نام پر جمع کیے گئے چندے کو مخصوص افراد نے غلط استعمال کیا، مگر ہر بار یہ آندھی ایک بے اثر گرد کی طرح بیٹھ جاتی ہے، اور خاموشی کا صحرا پھر سے اپنا راج قائم کر لیتا ہے۔
یہ اب کوئی راز نہیں رہا کہ واشنگٹن میں مختلف لابنگ فرموں سے روابط استوار کیے گئے، مگر ان کی پیش رفت سراب نکلی—ایسا سراب جو دور سے پانی کا عکس دکھاتا رہا مگر قریب جانے پر محض ریت ثابت ہوا۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ چندے کے یہ مقدس پیسے کسی انجان کھاتے میں جا پڑے ہوں، مگر یہ ضرور پہلا موقع ہے کہ کارکنوں کی آنکھوں کے سامنے حقیقت اس قدر بے نقاب ہوئی ہو۔ وہ مظاہرے، جو واشنگٹن کی سڑکوں پر گرجتے نعروں کے ساتھ کیے گئے، وہ ملاقاتیں، جو کانگریس کے ایوانوں میں کسی امید کی کرن سمجھ کر کی گئیں، اور وہ لابنگ فرمیں، جن کے دروازوں پر سچائی کے متلاشیوں نے دستک دی—سب وقت کی گرد میں ایسے اڑ گئے جیسے خزاں کی ہواؤں میں خشک پتوں کی کوئی کہانی۔ یہ سب کچھ ایک سراب تھا یا حقیقت؟ شاید وہی لوگ بہتر جانتے ہیں جن کے ہاتھوں میں کارکنوں کا اعتماد، اور دلوں میں اقتدار کی چمک تھی۔ مگر کارکنوں کے سوالات کی آندھی اب اس خاموشی کے صحرا کو روندنے کے لیے تیار ہے۔
یہ سوال ہر پی ٹی آئی کارکن کے لیے لمحۂ فکریہ ہے:
• کیا واقعی کوئی مؤثر لابنگ ہوئی؟
• کیا امریکہ کی پالیسی میں کوئی تبدیلی آئی؟
• کیا عمران خان کو اس مہم سے کوئی فائدہ ہوا؟
• اور سب سے اہم، وہ تمام چندے کہاں گئے؟
دوسری طرف، پاکستان میں سیاسی میدان اور خارجی محاذ میں پاکستان کے حالات بھی اپنی ہی ایک کہانی بیان کر رہے ہیں۔ دہشت گردی کی ایک نئی لہر سر اٹھا رہی ہے، اور سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کسی بڑی گیم کا حصہ ہے؟ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ایسے وقت میں جب امریکہ پاکستان کے عسکری اداروں کو سپورٹ کر رہا ہے، دہشت گردی کی کارروائیاں بھی بڑھ رہی ہیں؟ کیا انتہا پسند گروہوں کو ایک بار پھر کسی بڑے مقصد کے تحت متحرک کیا جا رہا ہے؟
بہرکیف یہ وہ لمحہ ہے جہاں سوالات کا طوفان وقت کی ریت پر اپنے نشان چھوڑ رہا ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت کے لیے یہ سوالات محض سرسری الفاظ نہیں، بلکہ ایک آئینہ ہیں، جس میں انہیں اپنی تنظیمی سچائی دیکھنی ہوگی۔ اگر پارٹی واقعی ایک انقلابی قوت بننا چاہتی ہے، تو اسے اپنی کمزوریوں کا اعتراف کرنا ہوگا، ورنہ تاریخ کے اوراق میں یہ تحریک بھی بس ایک اور خواب بن کر رہ جائے گی۔ امریکہ میں بیٹھے کچھ چہرے، جو پارٹی کے نام پر اپنی تجوریاں بھرتے رہے، اب نقاب کے پیچھے نہیں چھپ سکتے۔ کارکنوں کی دی گئی قربانیاں، احتجاجوں میں اٹھائے گئے نعرے، امیدوں کے چراغ سب کچھ ایک ایسے سائے میں گم ہو گیا جہاں صرف چند مخصوص ہاتھ روشنی سمیٹ رہے تھے۔ لیکن اب خاموشی کے صحرا میں سوالات کی آندھی چل چکی ہے۔ پردے گر چکے ہیں، حقیقت عیاں ہو چکی ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب تحریک انصاف کو اپنے اندر جھانکنا ہوگا۔ اگر امریکہ میں واقعی ایک مؤثر وجود رکھنا ہے، تو تنظیم نو ناگزیر ہے۔ وہ چہرے بے نقاب کرنے ہوں گے جنہوں نے کارکنوں کی سادگی اور جذباتی وابستگی کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا، جنہوں نے حق کی صدا کو دولت کی چمک میں گم کر دیا۔ یہ پیغام کارکنوں کے لیے ہے جاگو یا پھر تماشائی بن کر وقت کے فیصلے کا انتظار کرو۔ فیصلہ اب آپ کے ہاتھ میں ہے۔ کیا آپ خاموشی کے اس صحرا میں خود کو دفن ہونے دو گے، یا پھر سچائی کی آندھی میں اپنی آواز بلند کرو گے؟ اگر آج سوال نہ کیے گئے، اگر آج احتساب نہ ہوا، تو پھر یاد رکھو، ڈالروں کی بارش ہمیشہ ایک مخصوص زمین پر ہی برستی ہے اور وہ زمین شاید آپ کی نہیں، کسی اور کی تھی۔