اسلام آباد: وفاقی حکومت نے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی جانب سے غیر مجاز تنخواہوں میں اضافے کا نوٹس لیتے ہوئے شوکاز نوٹس جاری کر دیا ہے، جس میں کابینہ کی منظوری کے بغیر تنخواہوں میں اضافے کے فیصلے پر وضاحت طلب کی گئی ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکریٹریٹ کے اجلاس کے دوران، جس کی صدارت رانا محمود الحسن نے کی، سرکاری حکام نے تصدیق کی کہ نیپرا کو غیر مجاز تنخواہوں میں اضافے پر نوٹس دیا گیا ہے۔
نیشنل پاور ریگولیٹری اتھارٹی کے چیئرمین اور ممبران نے اپنی تنخواہیں تقریباً تین گنا بڑھا لیں، جبکہ اس کے لیے وفاقی کابینہ کی منظوری حاصل نہیں کی گئی تھی۔
ذرائع کے مطابق، کسی بھی قسم کے تنخواہ میں اضافے کے لیے کابینہ کی منظوری ضروری ہوتی ہے، لیکن نیپرا حکام نے اس عمل کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی تنخواہوں میں 20 لاکھ سے 22 لاکھ روپے تک کا اضافہ کر لیا۔
کابینہ سیکریٹری کامران علی افضل نے بتایا کہ نیپرا سے تنخواہوں میں اضافے کی وجوہات طلب کی گئی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ اضافہ نیپرا ایکٹ کے سیکشن 8 کی خلاف ورزی ہے، اور نیپرا حکام کو تحریری وضاحت پیش کرنی ہوگی۔
افضل نے اس بات پر بھی زور دیا کہ تمام ریگولیٹری ادارے وزیر اعظم یا وفاقی کابینہ کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔
یہ اضافہ ایڈہاک ریلیف اور ریگولیٹری الاؤنس کے نام پر کیا گیا۔ اکتوبر 2023 میں جاری کردہ ایک ترمیم شدہ نوٹیفکیشن کے مطابق، کل تنخواہ اور مراعات کی حد 10 لاکھ روپے مقرر کی گئی تھی۔
ذرائع کے مطابق، نیپرا کے چیئرمین اور تمام چار ممبران ایم پی-I پے اسکیل کے تحت آتے ہیں۔ اضافے کے بعد، چیئرمین کی تنخواہ 32 لاکھ روپے سے تجاوز کر چکی ہے، جبکہ چاروں ممبران کو اب 29 لاکھ روپے تک تنخواہ مل رہی ہے۔
منگل کو جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے، سابق نیپرا چیئرمین توصیف ایچ فاروقی نے کہا کہ ان کے دور میں، جو اگست 2023 تک جاری رہا، ان کی کل ماہانہ تنخواہ 7 لاکھ 90 ہزار روپے تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت نیپرا کے ممبران کو 7 لاکھ 40 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ دی جا رہی تھی۔
فاروقی کا کہنا تھا کہ نیپرا حکام کی تنخواہوں میں اضافے کی منظوری دینے کا اختیار صرف وفاقی کابینہ کے پاس ہے۔