فوجی عدالتوں کی منسوخی پر سوالات: سپریم کورٹ میں سماعت

فوجی عدالتوں کی منسوخی پر سوالات: سپریم کورٹ میں سماعت


اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر نے بدھ کے روز سوال اٹھایا کہ 21ویں آئینی ترمیم میں فوجی عدالتوں کو کالعدم کیوں نہیں کیا گیا؟ یہ سوال انہوں نے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں قائم سات رکنی بینچ کی سماعت کے دوران کیا، جو عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف دائر انٹرا کورٹ اپیل سن رہا تھا۔

وکلاء کے دلائل اور اعتراضات

  • لطیف کھوسہ نے مؤقف اختیار کیا کہ سلمان اکرم راجہ کے دلائل سے اختلاف ہے، کیونکہ وہ پہلے سے ان کے وکیل ہیں، مگر انہوں نے بغیر ہدایت کے جسٹس منیب اختر کے فیصلے سے اختلاف ظاہر کیا۔
  • سلمان اکرم راجہ نے وضاحت کی کہ انہوں نے صرف ایک پیراگراف سے اختلاف کیا تھا اور اپنے دلائل پر قائم ہیں۔
  • جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ ان کا سوال واضح تھا اور سوشل میڈیا پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں۔
  • جسٹس مسرت ہلالی نے بھی کہا کہ جج ہونے کے باعث وہ خبروں پر ردعمل نہیں دے سکتیں۔

لطیف کھوسہ اور ججز کے درمیان مکالمہ

  • لطیف کھوسہ نے مؤقف اپنایا کہ پورا ملک اس کیس کو دیکھ رہا ہے اور سپریم کورٹ بھی ایک آزمائش سے گزر رہی ہے۔
  • جسٹس امین الدین نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ عدالت خود کسی ٹرائل میں نہیں، بلکہ آئین و قانون کے مطابق فیصلہ کرے گی۔
  • کھوسہ نے مزید کہا کہ قرآن و سنت بھی عدلیہ کی آزادی پر زور دیتے ہیں، جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے جواب دیا کہ اسلامی خلافت کے دور میں بھی عدلیہ آزاد تھی۔
  • کھوسہ نے فوجی عدالتوں کے خفیہ ٹرائل کو اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیا، تاہم جسٹس امین الدین نے کہا کہ خواجہ حارث پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ شفاف ٹرائل کے لیے طریقہ کار موجود ہے، مسئلہ صرف اس پر عمل درآمد نہ ہونے کا ہے۔

ججز کے سوالات اور پارلیمنٹ کی ذمہ داری

  • جسٹس مندوخیل نے لطیف کھوسہ سے پوچھا کہ انہوں نے اپنے سیاسی کیریئر میں فوجی عدالتوں کے خاتمے کے لیے کیا اقدامات کیے؟
  • جسٹس مظہر نے سوال کیا کہ 21ویں ترمیم میں فوجی عدالتوں کو کیوں نہیں ختم کیا گیا؟
  • کھوسہ نے جواب دیا کہ یہ جنگی حالات کے باعث ممکن نہیں تھا، اور یہ ترمیم صرف دو سال کے لیے محدود تھی۔
  • جسٹس ہلالی نے نشاندہی کی کہ 26ویں ترمیم پارلیمنٹ نے منظور کی، مگر کھوسہ عدالت سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اسے کالعدم قرار دے۔

9 مئی کے واقعات اور پولیس کی کارروائی پر سوالات

  • لطیف کھوسہ نے 9 مئی کے ہنگاموں کے دوران پولیس کی عدم مداخلت پر سوال اٹھایا۔
  • جسٹس مسرت ہلالی نے جواب دیا کہ کیا آپ چاہتے تھے کہ پولیس اور عوام کے درمیان تصادم میں ہلاکتیں ہوتیں؟

عمران خان کے وکیل کے دلائل

  • عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری نے کھوسہ کے دلائل سے اتفاق کیا، سوائے سلمان اکرم راجہ کے اعتراضات کے۔
  • جسٹس مظہر نے بھنڈاری سے پوچھا کہ اگر نظرثانی ہی مقصد تھا، تو پارلیمنٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیوں متعارف کرایا؟
  • جسٹس امین الدین نے سوال کیا کہ اگر یہ محض ایک ریویو کیس ہے، تو اس کے لیے بڑا بینچ کیوں بنایا گیا؟

آئندہ کی سماعت

  • جسٹس مندوخیل نے کہا کہ 26ویں ترمیم نے ایک نیا سیٹ اپ متعارف کرایا، اور سوال یہ ہے کہ کیا پرانے قوانین اب بھی قابل عمل ہیں؟
  • جسٹس مظہر نے نشاندہی کی کہ آرٹیکل 184 کے تحت دیے گئے فیصلے ماضی میں عوام کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئے، جس کے بعد پارلیمنٹ نے نظرثانی کا حق دیا۔
  • عدالت نے کیس کی سماعت جمعرات (کل) تک ملتوی کر دی۔

اپنا تبصرہ لکھیں