صدر ٹرمپ کا آزاد ایجنسیوں کے اختیارات کو چیلنج کرنے کا فیصلہ

صدر ٹرمپ کا آزاد ایجنسیوں کے اختیارات کو چیلنج کرنے کا فیصلہ


امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ آزاد ایجنسیوں کے اختیارات کو چیلنج کر کے وفاقی حکومت کے حجم کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انہوں نے امریکی سپریم کورٹ میں ایک فوری درخواست دائر کی ہے تاکہ یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ آیا انہیں ایک آزاد ایجنسی کے سربراہ کو برطرف کرنے کا اختیار حاصل ہے جو انکشاف کرنے والے سرکاری ملازمین (وہسل بلورز) کے تحفظ کے لیے کام کرتا ہے۔

بی بی سی کے مطابق، ہیمپٹن ڈیلنجر، جو امریکی آفس آف اسپیشل کاؤنسل کے سربراہ تھے، نے ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف قانونی کارروائی کی، جب انہیں ای میل کے ذریعے برطرف کر دیا گیا۔

ہیمپٹن، جو سابق صدر جو بائیڈن کے مقرر کردہ تھے، کا کہنا ہے کہ ان کی برطرفی غیر قانونی ہے، کیونکہ ایک قانون آزاد ایجنسیوں کے سربراہان کو صدر کی مرضی سے برطرف کیے جانے سے تحفظ فراہم کرتا ہے، سوائے اس صورت میں جب وہ غفلت، بدعنوانی یا نااہلی کے مرتکب ہوں۔

صرف یہی نہیں، بلکہ ٹرمپ نے متعدد حکومتی نگران اداروں کے سربراہان کو بھی برطرف کیا اور ہزاروں وفاقی ملازمتیں ختم کر دیں۔

واشنگٹن، ڈی سی کی ایک وفاقی عدالت نے عارضی طور پر ہیمپٹن کو ان کے عہدے پر برقرار رہنے کی اجازت دے دی جب تک کہ کیس کا مکمل جائزہ نہیں لیا جاتا۔

دوسری جانب، واشنگٹن، ڈی سی کی امریکی اپیل عدالت نے ٹرمپ انتظامیہ کی درخواست مسترد کر دی، جس میں عدالتِ زیریں کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

جواب میں، محکمہ انصاف نے فوری طور پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا، جہاں قدامت پسند ججوں کی اکثریت موجود ہے۔

عبوری سالیسٹر جنرل سارہ ایم ہیرس نے واشنگٹن پوسٹ کو دیے گئے بیان میں لکھا:
“یہ عدالت نچلی عدالتوں کو یہ اختیار نہیں دے سکتی کہ وہ صدر پر دباؤ ڈال کر اسے اپنی مرضی کے خلاف کسی ایجنسی سربراہ کو برقرار رکھنے پر مجبور کریں۔”

بیان میں مزید کہا گیا:
“اب تک، جتنا ہمیں علم ہے، امریکی تاریخ میں کسی بھی عدالت نے صدر کو ایجنسی کے سربراہ کو برقرار رکھنے پر مجبور کرنے کے لیے ایسا کوئی حکم جاری نہیں کیا۔”

یہ پہلا کیس ہے جو ٹرمپ نے صدر بننے کے بعد سپریم کورٹ میں لے کر گئے ہیں۔


اپنا تبصرہ لکھیں