پاراچنار: کرم جانے والا ایک امدادی قافلہ پیر کے روز اوچت علاقے کے قریب فائرنگ کا نشانہ بنا، جس کے نتیجے میں ایک ٹرک ڈرائیور زخمی ہوگیا۔
پولیس کے مطابق، 64 گاڑیوں پر مشتمل یہ قافلہ تھل سے کرم جا رہا تھا جب نامعلوم حملہ آوروں نے اس پر گولیاں برسا دیں۔ واقعے کے بعد حکام نے حفاظتی اقدام کے تحت قافلے کو ہنگو واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا۔
اس واقعے کے بعد سیکیورٹی سخت کر دی گئی ہے، اور حکام معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں تاکہ مزید حملوں کو روکا جا سکے۔
کرم میں بدامنی اور حکومتی اقدامات
کرم کا علاقہ طویل عرصے سے تشدد کی لپیٹ میں رہا ہے، اور نومبر 2023 سے اب تک 150 سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ گزشتہ سال نومبر میں دو قافلوں پر حملوں کے نتیجے میں 40 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
شدید بدامنی کے باعث کرم کا دیگر علاقوں سے رابطہ منقطع ہوگیا، جس کی وجہ سے خوراک اور ادویات کی شدید قلت پیدا ہوگئی، اور مزید اموات کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں۔
حکومت اور فوج کی نگرانی میں ایک امن معاہدہ طے پایا، جس کے تحت تمام فریقین کو ہتھیار ڈالنے اور بنکرز ختم کرنے کا حکم دیا گیا۔ تاہم، اس معاہدے کے باوجود قافلوں اور اہم شخصیات پر حملے جاری رہے، جن میں ڈپٹی کمشنر جاویداللہ محسود اور اسسٹنٹ کمشنر سعید منان بوشہرہ پر ہونے والا حملہ بھی شامل ہے۔
گزشتہ ماہ دہشت گردوں نے ایک اور قافلے پر حملہ کیا، جس میں 8 افراد جاں بحق اور 6 حملہ آور مارے گئے۔
حکومتی سیکیورٹی اقدامات
خیبرپختونخوا حکومت نے کرم روڈ پر 120 سیکیورٹی چوکیاں قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے لیے 764 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ، 407 افراد کی بھرتی بھی منظور کی گئی ہے تاکہ سیکیورٹی کو یقینی بنایا جا سکے۔
حکومتی اقدامات کے تحت اب تک 9 امدادی قافلے، جن میں 718 گاڑیاں شامل تھیں، کرم بھیجی جا چکی ہیں۔ مزید برآں، ہیلی کاپٹر سروس کے ذریعے 153 پروازوں میں 4000 افراد کو منتقل کیا گیا، اور 19000 کلوگرام ادویات فراہم کی گئی ہیں۔
امن معاہدے پر عمل درآمد کے تحت کرم میں بنکرز ختم کرنے کا کام جاری ہے، اور اب تک 151 بنکرز گرا دیے گئے ہیں، جبکہ مارچ تک یہ کام مکمل کرنے کی ڈیڈلائن دی گئی ہے۔
کرم کے تاجروں کے مطالبات
کئی مہینوں سے پاراچنار، بوشہرہ اور دیگر علاقوں کے 100 سے زائد دیہات محاصرے کی زد میں ہیں، جس سے مقامی آبادی خوراک اور ادویات سے محروم ہو چکی ہے۔
علاقے کے تاجروں اور دکانداروں نے احتجاجی دھرنا دیا اور مطالبہ کیا کہ انہیں ہونے والے نقصانات کا معاوضہ دیا جائے۔ مظاہرین نے خبردار کیا کہ اگر ان کے مطالبات پورے نہ کیے گئے تو وہ تھل-پاراچنار روڈ بند کر دیں گے۔
دوسری جانب، کرم میں سڑکوں کی بندش کے باعث پیٹرول کی بلیک مارکیٹنگ ہو رہی ہے، اور قیمت 1200 سے 1500 روپے فی لیٹر تک پہنچ چکی ہے، جس کی وجہ سے لوگ پیدل سفر کرنے پر مجبور ہیں۔