افغان طالبان مسلسل تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو لاجسٹک، آپریشنل اور مالی معاونت فراہم کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو پیش کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق، افغان سرزمین سے پاکستانی علاقوں پر 600 سے زائد حملے ریکارڈ کیے گئے ہیں، اور طالبان کی جانب سے اس گروہ کو ماہانہ 30 لاکھ افغانی (تقریباً 43,000 امریکی ڈالر) دیے جا رہے ہیں۔
ٹی ٹی پی نے افغانستان میں اپنی تربیتی تنصیبات کو وسعت دی ہے، اور کنڑ، ننگرہار، خوست اور پکتیکا کے علاقوں میں نئے مراکز قائم کیے ہیں۔ اس کے علاوہ، گروہ نے افغان طالبان کے جنگجوؤں کو بھرتی کرنے کے عمل میں بھی اضافہ کیا ہے۔
یہ رپورٹ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ٹی ٹی پی اور القاعدہ کے درمیان تعلقات مزید مضبوط ہو چکے ہیں، اور یہ مشترکہ حملے کرنے کے لیے تحریک جہاد پاکستان (ٹی جے پی) کے بینر تلے متحرک ہیں۔ اس اتحاد کے نتیجے میں ٹی ٹی پی خطے میں ایک بڑے خطرے کے طور پر ابھر سکتی ہے اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے لیے چھتری فراہم کر سکتی ہے۔
رپورٹ میں داعش-خراسان کی ناکامیوں کا بھی ذکر ہے، جس میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے اس کے کئی اہم رہنماؤں کو گرفتار کیا، جو پاکستان میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ تاہم، کچھ سینئر عسکریت پسند اب بھی افغانستان میں موجود ہیں، اور تنظیم روایتی ذرائع استعمال کر کے اپنا نیٹ ورک قائم رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔
بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے مجید بریگیڈ نے بھی کئی حملوں کی ذمہ داری قبول کی، جس میں خواتین عسکریت پسند بھی شامل تھیں۔ اس بریگیڈ کے ٹی ٹی پی، داعش-خراسان اور مشرقی ترکستان اسلامی تحریک (ای ٹی آئی ایم) کے ساتھ روابط کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔
پاکستان نے بارہا افغانستان پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے استعمال ہونے سے روکے۔ سیکیورٹی فورسز مسلسل دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہیں، جن میں حال ہی میں 15 عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا، جن میں افغان طالبان کے ارکان بھی شامل تھے۔
جنوری 2025 میں پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں 42 فیصد اضافہ ہوا، جن میں سب سے زیادہ متاثرہ علاقے خیبر پختونخوا اور بلوچستان تھے۔ اس دوران دو خودکش حملے بھی ہوئے، جن کی ذمہ داری کالعدم ٹی ٹی پی اور بی ایل اے نے قبول کی۔