اسلام آباد: بڑھتے ہوئے مہاجر کشتی حادثات اور بیرون ملک پاکستانیوں کے بھیک مانگنے کی شکایات کے پیش نظر، حکومت نے موجودہ قوانین میں ترامیم کر کے ان مسائل کے حل کے لیے اقدامات کیے ہیں۔
جمعہ کے روز سینیٹ نے متفقہ طور پر انسانی اسمگلنگ کی روک تھام (ترمیمی) بل، مہاجرین کی اسمگلنگ کی روک تھام (ترمیمی) بل، اور امیگریشن (ترمیمی) بل منظور کر لیے، جو کہ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پیش کیے تھے۔
یہ قوانین پہلے ہی متعلقہ قائمہ کمیٹی سے منظور ہو چکے ہیں اور ان کے ذریعے نوجوان لڑکیوں کی جسم فروشی کے لیے اسمگلنگ اور گداگروں کو خلیجی ممالک لے جانے جیسے جرائم کی روک تھام میں مدد ملے گی۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب حالیہ مہینوں میں یورپ پہنچنے کی کوشش میں کشتی حادثات کے باعث درجنوں پاکستانی جاں بحق ہوئے ہیں، جس کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے انسانی اسمگلرز اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایات جاری کیں۔
اس کے ساتھ ساتھ، موجودہ قوانین میں ترامیم کا تعلق ایک اور مسئلے سے بھی ہے، جس میں پاکستانیوں کے بیرون ملک بھیک مانگنے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ جولائی 2024 میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانیوں اور انسانی وسائل کی ترقی کے اجلاس میں اس معاملے کی تصدیق کی گئی تھی۔
نومبر 2024 میں حکومت نے 4,300 گداگروں کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ECL) میں ڈال دیے، جو کہ وزیر داخلہ محسن نقوی اور سعودی عرب کے سفیر نوّاف بن سعید احمد المالکی کے درمیان ملاقات کے بعد کیا گیا۔
گزشتہ ہفتوں میں سینکڑوں پاکستانیوں کو خلیجی ممالک سے بے ضابطگیوں، ناکافی سفری فنڈز، قانونی کارروائیوں میں خامیوں، جرائم میں ملوث ہونے اور بھیک مانگنے جیسے مسائل کے باعث ملک بدر کیا گیا ہے۔
سینیٹ اجلاس کے دوران وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ حالیہ کشتی حادثات میں متعدد غیر قانونی تارکین وطن کی ہلاکتوں نے حکومت کو اس مسئلے کو روکنے کے لیے فوری اقدامات پر مجبور کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزارت داخلہ نے متعلقہ فریقین سے مشاورت کے بعد قوانین میں ترامیم تجویز کی ہیں تاکہ انسانی اسمگلنگ، لڑکیوں اور بھیک مانگنے والوں کی غیر قانونی نقل و حرکت کو روکا جا سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بھکاریوں کو بیرون ملک بھیجنے والے گروہ پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہے ہیں، اور یہ افسوسناک حقیقت بھی اجاگر کی کہ نوجوان لڑکیوں کو غیر قانونی مقاصد کے لیے اسمگل کیا جا رہا ہے۔
انسانی اسمگلنگ کی روک تھام (ترمیمی) بل 2018 میں ترامیم کے ذریعے منظم بھیک مانگنے کو قابل سزا جرم قرار دیا گیا ہے۔
اس قانون میں انسانی اسمگلنگ کے جرم کی سزا کو تین سے سات سال، اور بعض صورتوں میں سات سے دس سال قید اور ایک ملین روپے جرمانہ کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جبکہ بچوں اور خواتین کے خلاف جرم پر 14 سال قید اور 2 ملین روپے تک جرمانہ تجویز کیا گیا ہے۔
پاکستانی سفارتی مشنز نے خلیجی ممالک، عراق اور ملائیشیا میں ایسے افراد کی نشاندہی کی ہے جو حج، عمرہ، زیارت یا ذاتی دوروں پر آ کر بھیک مانگنے میں ملوث پائے گئے۔ ان ممالک نے پاکستانی حکام سے سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
بل کے مطابق، چونکہ گداگری کو کسی بھی قانون میں جرم قرار نہیں دیا گیا، اس لیے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر قانون سازی کی ضرورت ہے۔
مہاجرین کی اسمگلنگ کی روک تھام (ترمیمی) بل میں مجرموں کے لیے سزا کو پانچ سال سے بڑھا کر دس سال کرنے اور جرمانے کو ایک ملین سے بڑھا کر دس ملین روپے کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
اس بل میں غیر قانونی مہاجرین کو پناہ دینے والوں کے لیے سزا کو تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کرنے اور جرمانے کی حد کو دوگنا کر کے دو ملین روپے کرنے کی تجویز بھی شامل ہے۔
مزید برآں، امیگریشن (ترمیمی) بل کو بھی منظور کیا گیا ہے، جو امیگریشن آرڈیننس میں ترامیم کے ذریعے عدالتوں کو صرف معمولی جرمانہ عائد کر کے ملزمان کو رہا کرنے کے اختیار سے محروم کرے گا۔
اس میں قید کو لازمی کرنے کی تجویز دی گئی ہے اور جرمانے کی حد کو ایک ملین روپے تک بڑھا دیا گیا ہے۔
سینیٹ کے اراکین پیر تک بل پر اپنی سفارشات سینیٹ سیکرٹریٹ میں جمع کروا سکتے ہیں، جب ایوان دوبارہ اجلاس کے لیے مدعو کیا جائے گا۔