کراچی میں جاری ٹریفک کے مسائل اور بھاری گاڑیوں سے ہونے والے جان لیوا حادثات کے پیش نظر سندھ حکومت نے ڈمپرز کے داخلے پر سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
نئے حکم نامے کے مطابق، اب ڈمپرز کو رات 11 بجے سے صبح 6 بجے تک کراچی میں داخلے کی اجازت ہوگی، تاکہ ٹریفک حادثات کو کم کیا جا سکے اور سڑکوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔
یہ پہلی بار نہیں کہ ڈمپرز پر پابندی لگائی گئی ہو۔ ماضی میں بھی رات گئے سے صبح تک بھاری ٹریفک پر پابندی کے احکامات جاری کیے گئے، مگر قانونی خلا اور ترقیاتی منصوبوں کی آڑ میں دن کے اوقات میں بھی ڈمپرز کی آمد و رفت جاری رہی۔
کراچی میں تعمیراتی کاموں کے لیے سیمنٹ، ریت اور بجری لانے والے ڈمپرز کو اکثر بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کی روانی برقرار رکھنے کے نام پر اجازت دی جاتی رہی ہے۔ تاہم، اس کے باوجود شہر میں ان گاڑیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا، جس کے نتیجے میں حادثات کی شرح بھی بڑھی ہے۔
ملیر اور کورنگی جیسے علاقے حادثات کے بڑے مراکز بن چکے ہیں، جبکہ نیشنل ہائی وے، سپر ہائی وے، سہراب گوٹھ اور حب روڈ پر اکثر سنگین حادثات پیش آتے ہیں۔
کراچی میں حالیہ دو ماہ کے دوران ٹریفک حادثات میں 100 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جن میں 72 اموات شہری علاقوں میں اور 24 مضافاتی علاقوں میں ہوئیں۔ ان میں سے آٹھ اموات چار مختلف ڈمپر حادثات میں ہوئیں۔
اس تشویشناک صورتحال کے پیش نظر، سندھ کے چیف سیکریٹری سید آصف حیدر شاہ نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی، جس میں ٹریفک کے تحفظ کے اقدامات پر غور کیا گیا۔
فیصلہ کیا گیا کہ کراچی میں چلنے والی تمام گاڑیوں کو محکمہ ٹرانسپورٹ سے کیو آر کوڈ سرٹیفکیٹ حاصل کرنا ہوگا، جبکہ بھاری گاڑیوں اور ان کے ڈرائیورز کی جسمانی تصدیق کی جائے گی تاکہ حفاظتی معیار پر عملدرآمد یقینی بنایا جا سکے۔
اس کے علاوہ، سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ آئندہ تین ماہ میں اپنے تمام آپریشن رات کے وقت منتقل کرے، جبکہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے ٹینکرز کی ایک ماہ کے اندر حفاظتی معائنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانوں میں چار گنا اضافہ تجویز کیا گیا ہے، جبکہ لاپرواہ ڈرائیورز پر جرمانے کے ساتھ ایف آئی آر بھی درج کی جائے گی تاکہ انہیں جوابدہ بنایا جا سکے۔
کراچی میں پانی کے ٹینکرز کی بے قابو آمد و رفت بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، کیونکہ یہ چوبیس گھنٹے چلتے ہیں، حالانکہ ہائیڈرنٹس ہر وقت فعال نہیں ہوتے۔ ان کے لیے مخصوص اوقات مقرر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ٹریفک کے دباؤ اور حادثات کو کم کیا جا سکے۔
اس کے علاوہ، کراچی میں موٹر سائیکلوں اور چنگ چی رکشوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ بھی ٹریفک کے مسائل میں اضافہ کر رہا ہے۔ شہر میں 43 لاکھ سے زائد موٹر سائیکلیں ہیں، جبکہ ہر سال 1 لاکھ سے زائد نئی رجسٹریشنز ہو رہی ہیں۔
عوامی ٹرانسپورٹ کے موثر نظام کی عدم موجودگی کے باعث شہری بڑی تعداد میں موٹر سائیکلوں پر انحصار کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے سڑکوں پر ازدحام اور حادثات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کراچی میں ہونے والے کل ٹریفک حادثات میں سے 55 فیصد موٹر سائیکل سواروں سے متعلق ہوتے ہیں۔
چنگ چی رکشوں کے بے ہنگم اضافے نے بھی ٹریفک کے مسائل کو مزید بگاڑ دیا ہے، کیونکہ یہ بغیر کسی ضابطے کے سڑکوں پر دوڑ رہے ہیں۔
اگرچہ لاہور میں موٹر سائیکل سواروں کے لیے مخصوص لینز بنائی گئی ہیں، مگر کراچی میں ایسی کوشش محض ایک ہفتے تک جاری رہی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹریفک قوانین پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے این جی اوز اور میڈیا کے اشتراک سے مستقل آگاہی مہم ضروری ہے۔
شہر میں ایک موثر عوامی ٹرانسپورٹ سسٹم کی ترقی ناگزیر ہے تاکہ لوگ موٹر سائیکلوں اور چنگ چی رکشوں پر کم انحصار کریں۔ بھاری گاڑیوں کے لیے سخت قوانین نافذ کیے جائیں، اور ڈمپرز اور ان کے ڈرائیورز کا مکمل ڈیٹا بیس مرتب کیا جائے۔
شہریوں میں ٹریفک قوانین کی آگاہی کے لیے مسلسل مہمات چلائی جائیں اور سڑکوں کی منصوبہ بندی میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے تاکہ ان اقدامات کے مثبت نتائج حاصل ہو سکیں۔