کراچی پولیس حراست میں شہری کی ہلاکت پر تحقیقات کا حکم

کراچی پولیس حراست میں شہری کی ہلاکت پر تحقیقات کا حکم


کراچی کے علاقے پریڈی پولیس کی حراست میں ہفتہ کے روز ایک شہری قاضی وقاص الدین، عمر 34 سال، جاں بحق ہوگئے۔ وہ جمعہ کے روز ایک سڑک حادثے میں ملوث تھے۔

اس واقعے کے بعد نو پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا، جبکہ کراچی پولیس چیف اور سندھ کے وزیر داخلہ ضیا الحسن لنجار نے شفاف تحقیقات کا حکم دیا۔

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ایم اے جناح روڈ کے ٹریفک سگنل کے قریب دو موٹر سائیکلیں آپس میں ٹکرا گئیں، جس کے بعد دونوں فریقین میں تلخ کلامی ہوئی جو بعد میں ہاتھا پائی میں بدل گئی۔

پریڈی تھانے میں درج ایف آئی آر کے مطابق، پولیس کانسٹیبل محمد اسامہ اپنے دوست محمد صحابی کے ساتھ موٹر سائیکل پر سوار تھا کہ تیز رفتاری سے مخالف سمت سے آتی ہوئی ایک اور موٹر سائیکل ان سے ٹکرا گئی۔

اسامہ کے مطابق، جیسے ہی وہ اپنی موٹر سائیکل سے نیچے اترا، دوسرے فریق نے اس پر گالم گلوچ شروع کر دی۔ جب اس نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی تو وہ ان پر حملہ آور ہوگئے اور دیگر افراد نے بھی شامل ہو کر انہیں زخمی کر دیا۔

اسامہ نے دعویٰ کیا کہ اس کے بیگ میں موجود لیپ ٹاپ، نقدی اور موبائل فون بھی چوری کر لیے گئے۔ اس دوران، پریڈی پولیس کی موبائل وین موقع پر پہنچی اور پولیس اہلکاروں کو صورتحال سے آگاہ کیا گیا، جس کے بعد تین افراد کو گرفتار کر لیا گیا، جبکہ دیگر افراد بھیڑ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہوگئے۔

موبائل افسر اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) غلام ربانی نے گرفتار افراد کے نام پوچھے، جنہوں نے اپنے نام احتشام، قاضی وقاص الدین اور محمد اکرام بتائے۔ انہیں بعد میں پریڈی تھانے کی حوالات میں بند کر دیا گیا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ہفتہ کی صبح وقاص الدین کی طبیعت بگڑ گئی، جس کے بعد انہیں ہسپتال لے جایا گیا، جہاں دوران علاج وہ دم توڑ گئے۔

وزیر داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار نے ایس ایس پی ساؤتھ سے تفصیلی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحقیقات کی جائیں کہ شہری پولیس کی حراست میں کیسے جاں بحق ہوا، کیونکہ پولیس کا کام عوام کی جان و مال کی حفاظت کرنا ہے۔

دوسری جانب، متوفی کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ وقاص الدین ناظم آباد کا رہائشی اور صدر الیکٹرانکس مارکیٹ میں مزدور تھا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ پولیس نے پوری رات اسے تشدد کا نشانہ بنایا، جس کی وجہ سے اس کی موت واقع ہوئی۔ لواحقین نے حکومت سے ذمہ دار اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔

ہسپتال ذرائع کے مطابق، متوفی کا پوسٹ مارٹم کر لیا گیا ہے اور رپورٹ محفوظ کر لی گئی ہے۔ حتمی وجہ موت میڈیکل رپورٹ مکمل ہونے کے بعد واضح ہوگی۔

وقاص الدین کی موت کے بعد بڑی تعداد میں ان کے رشتہ دار اور الیکٹرانکس مارکیٹ کے تاجر پریڈی تھانے کے باہر جمع ہوگئے اور انصاف کے حصول کے لیے احتجاج کیا، جس کے باعث علاقے میں ٹریفک جام ہو گیا۔

مشتعل مظاہرین نے پریڈی پولیس اسٹیشن کے قریب واقع ایک پولیس چوکی کو بھی نذر آتش کر دیا۔

واقعے کے بعد ساؤتھ رینج پولیس چیف ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) اسد رضا نے پریڈی تھانے کے نو اہلکاروں کو معطل کر دیا، جن میں اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) انسپکٹر پرویز علی سولنگی اور اسٹیشن انویسٹی گیشن آفیسر (ایس آئی او) سب انسپکٹر محمد حنیف سیال بھی شامل ہیں۔

مزید معطل ہونے والے اہلکاروں میں اے ایس آئی شاہد نظیر، اے ایس آئی فیض احمد، ہیڈ کانسٹیبل ذیشان حیدر، کانسٹیبل محمد اسامہ، کانسٹیبل آصف مجتبیٰ، کانسٹیبل رحمان اللہ اور کانسٹیبل ریاض احمد شامل ہیں۔

کراچی پولیس چیف ایڈیشنل آئی جی جاوید عالم اوڈھو نے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا اور ایڈمن ڈی آئی جی ذوالفقار لراک کو انکوائری آفیسر مقرر کر کے واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا۔ مزید کارروائی انکوائری رپورٹ کی روشنی میں کی جائے گی۔

وزیر داخلہ سندھ نے بھی اس واقعے کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے ڈی آئی جی رضا سے تفصیلی رپورٹ طلب کر لی ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کا کہا ہے کہ تفتیش شفاف طریقے سے کی جائے۔


اپنا تبصرہ لکھیں