ایم کیو ایم پاکستان میں اندرونی اختلافات شدت اختیار کر گئے

ایم کیو ایم پاکستان میں اندرونی اختلافات شدت اختیار کر گئے


کراچی: متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم پی) میں تنظیمی عہدوں کی تقسیم کے بعد شدید اندرونی اختلافات پیدا ہوگئے ہیں، جس کے باعث کئی سینئر رہنماؤں نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔

یہ ناخوشگوار صورتحال پارٹی کے بہادرآباد ہیڈکوارٹرز میں ایک بڑے احتجاجی اجتماع کی صورت میں سامنے آئی، جہاں کارکنان نے حالیہ تنظیمی تبدیلیوں کے خلاف مظاہرہ کیا۔

ہفتے کے روز پارٹی کی جانب سے ایک سرکلر جاری کیا گیا، جس میں نئی تنظیمی ذمہ داریوں کا اعلان کیا گیا۔ تاہم، اس اقدام نے پارٹی میں مزید اختلافات کو جنم دیا، اور کارکنان سمیت بعض رہنماؤں کی جانب سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔

سینئر رہنماؤں انیس قائم خانی، امین الحق، اور ڈاکٹر فاروق ستار کو مرکزی تنظیمی کمیٹی میں شامل کیا گیا ہے۔

بہادرآباد ہیڈکوارٹرز میں احتجاج کرنے والے کارکنان نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے پارٹی کے چیئرمین خالد مقبول صدیقی کے حق میں اور سابق میئر کراچی مصطفیٰ کمال کے خلاف نعرے بازی کی۔ کچھ کارکنان نے شکایت کی کہ فیصلے کرتے وقت ان سے مشاورت نہیں کی گئی۔

ذرائع کے مطابق، ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت تنظیمی ڈھانچے کی تشکیلِ نو پر تقسیم ہے۔ کارکنان نے بعض رہنماؤں کو نظرانداز کرنے پر مایوسی کا اظہار کیا، جبکہ اطلاعات کے مطابق احتجاج کے دوران بعض افراد کی پارٹی عہدیداروں کے ساتھ تلخ کلامی بھی ہوئی۔

اگرچہ بحران شدت اختیار کر چکا ہے، تاہم پارٹی رہنماؤں نے صورتحال کو کم اہم دکھانے کی کوشش کی ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے خالد مقبول صدیقی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ “ان کے خلاف عدم اعتماد کی کوئی ضرورت نہیں اور پارٹی آئین میں ایسی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔”

انہوں نے پارٹی میں اتحاد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے خبردار کیا کہ اس مرحلے پر کسی بھی قسم کی تقسیم تمام دھڑوں کے لیے نقصان دہ ہوگی۔

فاروق ستار نے اندرونی اختلافات کا اعتراف تو کیا، لیکن کہا کہ انہیں عوامی سطح پر اجاگر کرنے کے بجائے اندرونی طور پر حل کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پارٹی کے انضمام کے معاہدوں سے پیدا ہونے والی کسی بھی غلط فہمی کو بات چیت کے ذریعے دور کیا جا سکتا ہے۔

دوسری جانب، حالیہ فیصلوں میں سندھ کے گورنر کامران ٹیسوری کے مبینہ کردار پر بھی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں، کیونکہ احتجاج کے دوران ان کے خلاف نعرے بازی کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ تاہم، بعض رہنماؤں نے ان اطلاعات کی تردید کی ہے۔


اپنا تبصرہ لکھیں