امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کی پٹی پر امریکی کنٹرول کے منصوبے کے تحت امریکی فوجی تعیناتی کے امکان کو مسترد کر دیا ہے، وائٹ ہاؤس نے بدھ کو تصدیق کی۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیوٹ نے بتایا کہ ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کو خطے میں استحکام یقینی بنانے کے لیے غزہ کی تعمیر نو میں شامل ہونا چاہیے، لیکن اس کا مطلب وہاں فوجی بھیجنا نہیں ہے۔
لیوٹ نے یہ بھی کہا کہ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں کو “عارضی طور پر کہیں اور منتقل” کیا جائے تاکہ علاقے کو دوبارہ تعمیر کیا جا سکے۔ تاہم، ایک دن پہلے، ٹرمپ نے فلسطینیوں کی مستقل بے دخلی کی تجویز دی تھی، جس پر عالمی سطح پر شدید تنقید کی گئی۔
ٹرمپ کے بیان پر عالمی ردعمل
متحدہ عرب امارات (UAE)
یو اے ای کی وزارت خارجہ نے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کی کسی بھی کوشش کو سختی سے مسترد کر دیا اور فلسطینی حقوق کے احترام پر زور دیا۔ وزارت نے کہا کہ خطے میں استحکام صرف دو ریاستی حل کے ذریعے ممکن ہے اور کسی بھی ایسے اقدام سے گریز کرنا چاہیے جو علاقائی استحکام کو نقصان پہنچائے۔
یورپی یونین (EU)
یورپی یونین نے ایک بار پھر دو ریاستی حل کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ غزہ مستقبل میں ایک آزاد فلسطینی ریاست کا لازمی حصہ ہے۔ یورپی یونین نے تمام فریقین پر زور دیا کہ وہ امن کے قیام میں اپنا کردار ادا کریں اور ایسے اقدامات سے بچیں جو قیامِ امن کی کوششوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
حزب اللہ
لبنانی مزاحمتی گروپ حزب اللہ نے ٹرمپ کے بیان کو “مجرمانہ” اور “غیر قانونی قبضے کی حمایت” قرار دیا۔ حزب اللہ نے غزہ کے عوام پر زور دیا کہ وہ اپنی سرزمین پر اپنے حقوق کے لیے ڈٹے رہیں اور کسی بھی جبری نقل مکانی کو مسترد کریں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کے تصور کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔ انہوں نے تمام فریقوں سے کہا کہ وہ پرامن اور دیرپا حل تلاش کریں اور ایسے بیانات سے گریز کریں جو خطے میں کشیدگی کو بڑھا سکتے ہیں۔
اسلامی تعاون تنظیم (OIC)
او آئی سی نے ٹرمپ کے بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے فلسطینی سرزمین پر غیر قانونی قبضے اور اسرائیلی توسیع پسندی کی عکاسی قرار دیا۔ تنظیم نے کہا کہ فلسطینی علاقوں میں کسی بھی جغرافیائی یا آبادیاتی تبدیلی کو قبول نہیں کیا جا سکتا اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اسرائیلی قبضے کا خاتمہ اور فلسطینیوں کی واپسی ضروری ہے۔
او آئی سی نے فوری اور مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کو ان کے گھروں میں محفوظ واپسی دی جائے اور غزہ کی اقتصادی بحالی کے اقدامات کیے جائیں۔
ٹرمپ کی پالیسی میں تبدیلی؟
منگل کے روز ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکہ جنگ زدہ غزہ پر کنٹرول حاصل کرے گا اور فلسطینیوں کی بیرونی ممالک میں مستقل منتقلی کے بعد اس کی اقتصادی ترقی کرے گا، جو امریکی پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی ہوگی۔
اس بیان کے بعد، بینجمن نیتن یاہو کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں، ٹرمپ نے غزہ کو “تباہی کا شکار علاقہ” قرار دیا اور فلسطینیوں کے مکمل انخلا کا مطالبہ کیا، جسے عالمی برادری نے سختی سے مسترد کر دیا۔
ٹرمپ کی اس تجویز سے مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے اتحادی، بشمول سعودی عرب، کے ساتھ تعلقات پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں، کیونکہ یہ منصوبہ دو ریاستی حل کے اصولوں کے برعکس نظر آتا ہے۔