بنگلہ دیش میں سیاسی افراتفری: شیخ مجیب کے گھر پر حملہ اور حکومتی بحران

بنگلہ دیش میں سیاسی افراتفری: شیخ مجیب کے گھر پر حملہ اور حکومتی بحران


سیاسی افراتفری کا عروج
بنگلہ دیش میں سیاسی عدم استحکام جمعرات کو عروج پر پہنچا جب مظاہرین، جن میں کچھ نے چھڑیوں اور اوزاروں سے لیس ہوکر، سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کے والد شیخ مجیب الرحمان کے رہائشی مکان پر دھاوا بول دیا۔ یہ عمارت بنگلہ دیش کی آزادی کے اعلان کا تاریخی مقام ہے، اور مظاہرین نے اس کو نذر آتش کیا اور کرین اور ایکسکویٹر کے ذریعے جزوی طور پر تباہ کر دیا۔
یہ احتجاج “بلڈوزر پریسیشن” کے نام سے مشہور تحریک کا حصہ تھا، جس کا مقصد حسینہ کے سوشل میڈیا پر ہونے والے خطاب کو روکنا تھا۔

حسینہ کا خطاب اور ردعمل
حسینہ، جو اگست 2024 میں اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد بھارت میں جلاوطنی اختیار کر چکی ہیں، نے ایک جذباتی خطاب میں اپنے حمایتیوں سے اپیل کی کہ وہ عبوری حکومت کے خلاف کھڑے ہوں اور ان پر آئینی طور پر اقتدار کے غیر قانونی قبضے کا الزام عائد کیا۔
مظاہرین، جو بڑی تعداد میں “طلاب برائے امتیاز” تحریک کے اراکین تھے، نے اس خطاب کے بعد شدید ردعمل ظاہر کیا۔ انہوں نے حسینہ کی حکمرانی کے دوران بنگلہ دیش کے آئین 1972 کو ختم کرنے کی بات کی، جو ان کے مطابق حسینہ کے دور کی میراث ہے۔

تاریخی اہمیت
شیخ مجیب الرحمان، جو “بنگ بندھو” کے لقب سے مشہور ہیں، بنگلہ دیش کی آزادی کے بانی سمجھے جاتے ہیں۔ ان کا گھر آزادی کے نشان کے طور پر جانا جاتا ہے، لیکن یہ بھی ایک غمگین واقعے کی گواہی دیتا ہے۔ 1975 میں، مجیب اور ان کے خاندان کے بیشتر افراد کو اس ہی عمارت میں قتل کر دیا گیا تھا، اور حسینہ، جو اس حملے سے بچ گئیں، نے بعد میں اس گھر کو اپنے والد کی میراث کے طور پر ایک میوزیم میں تبدیل کر دیا۔
حسینہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ “وہ ایک عمارت کو تباہ کر سکتے ہیں، مگر تاریخ کو نہیں، تاریخ اپنی انتقام لیتی ہے”۔ یہ الفاظ ان کی مسلسل مزاحمت کی عکاسی کرتے ہیں، جبکہ انہیں گزشتہ برس کے طلبہ احتجاج پر ان کے حکومت کے کریک ڈاؤن کی پاداش میں الزامات کا سامنا ہے، جس میں سینکڑوں افراد کی ہلاکتیں ہوئیں۔

سیاسی بحران اور انصاف کی آوازیں
یہ سیاسی بحران اگست 2024 سے بڑھتا جا رہا ہے، جب بڑے پیمانے پر احتجاج کے نتیجے میں حسینہ کو بھارت فرار ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔ عبوری حکومت کے رہنما محمد یونس ملک میں استحکام لانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن انہیں بدعنوانی کے الزامات اور ملک کی معاشی مشکلات کے حل میں ناکامی کا سامنا ہے۔
مظاہرین حسینہ کے خلاف طالب علموں کے احتجاج کو کچلنے میں ان کے کردار کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں اور ان کی دو دہائیوں پر محیط حکمرانی میں بدعنوانی کا الزام عائد کر رہے ہیں۔

نئے انتخابات اور حکومت کا مستقبل
یونس، جو حسینہ کی معزولی کے بعد حکومت کے سربراہ بنے، نے 2025 یا 2026 کے آخر میں انتخابات کرانے کا عہد کیا ہے، لیکن ملک ابھی بھی سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ حسینہ کے حمایتی اور مخالفین دونوں ہی یونس پر تنقید کر رہے ہیں، اور ان پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے ملک کے معاشی بحران کو مزید بڑھایا ہے۔ یونس نے یہ بھی کہا کہ حسینہ نے اپنے دور میں ملک کی معیشت کی ترقی کے بارے میں جھوٹ بولا اور اربوں ڈالر کی منی لانڈرنگ کی، جس نے کشیدگی کو مزید بڑھایا۔

نتیجہ
جیسے جیسے مظاہرے بڑھ رہے ہیں، بنگلہ دیش ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے۔ شیخ مجیب الرحمان کے گھر کا جلانا ملک کی سیاسی کشمکش میں ایک اہم موڑ کو ظاہر کرتا ہے، جو یا تو ایک نئے حکومتی دور کا آغاز کر سکتا ہے یا پھر ایک اور دہائیوں سے جاری سیاسی تقسیم کو مزید گہرا کر دے گا۔


اپنا تبصرہ لکھیں