ٹرمپ کا نیا اعلان: غیر قانونی تارکین وطن کے لیے گوانتانامو بے کو حراستی مرکز میں تبدیل کرنے کا فیصلہ


ٹرمپ کا نیا اعلان: غیر قانونی تارکین وطن کے لیے گوانتانامو بے کو حراستی مرکز میں تبدیل کرنے کا فیصلہ

رپورٹ : راجہ زاہد اختر خانزادہ
ڈیلس: : صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے  آج بدھ کے روز ایک اہم اعلان کرتے ہوئے گوانتانامو بے کو غیر قانونی تارکین وطن کے حراستی مرکز کے طور پر وسعت دینے کے لیے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے ہیں۔ صدر کے مطابق، اس اقدام کا مقصد ان افراد کو امریکہ سے باہر ایک محفوظ مقام پر رکھنا ہے جنہیں وہ ملک کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ یہ اعلان صدر ٹرمپ کی جانب سے “لیکن رائلی ایکٹ” پر دستخط کرنے سے قبل سامنے آیا۔ اس قانون کے تحت ان غیر ملکی شہریوں کی لازمی حراست کو وسعت دی گئی ہے جن پر چوری، ڈکیتی، یا شاپ لفٹنگ جیسے جرائم کے الزامات ہیں۔ اس قانون کا نام 22 سالہ نرسنگ طالبہ لیکن رائلی کے نام پر رکھا گیا، جسے مبینہ طور پر ایک غیر دستاویزی وینزویلیائی تارک وطن نے قتل کر دیا تھا۔

صدر ٹرمپ نے اپنے خطاب میں دعویٰ کیا کہ گوانتانامو بے میں 30,000 بستروں کی گنجائش موجود ہے، جس کے بارے میں “زیادہ تر لوگوں کو معلوم نہیں۔” انہوں نے مزید کہا:ہمارے پاس گوانتانامو میں 30,000 بستروں کی گنجائش ہے تاکہ انخطرناک غیر قانونی تارکین وطن مجرموں کو اسمیں رکھا جا سکے جو امریکی عوام کے لیےخطرہ ہیں۔ ان میں سے بعض اتنے خطرناک ہیں کہ ہم ان کے آبائی ممالک پر بھی بھروسہنہیں کرتے کہ وہ انہیں سنبھال سکیں، اس لیے ہم انہیں گوانتانامو بھیجیں گے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ گوانتانامو بے میں واقعی کتنی گنجائش ہے اور صدر ٹرمپ نے 30,000 کی تعداد کیسے حاصل کی۔ اس سے قبل بھی انہوں نے مجرمانہ پس منظر رکھنے والے تارکین وطن کو امریکہ سے باہر حراست میں رکھنے یا قید کرنے کا عندیہ دیا تھا، لیکن اس منصوبے کے عملی پہلو اور قانونی پیچیدگیاں ابھی تک غیر واضح ہیں گوانتانامو بیس میں پہلے ہی ایک “مائیگرنٹ آپریشنز سینٹر” موجود ہے، جہاں امریکی امیگریشن حکام برسوں سے ان پناہ گزینوں کی اسکریننگ کرتے رہے ہیں جو سمندر میں روکے جاتے ہیں۔ یہ سینٹر، نائن الیون کے بعد قائم کردہ اس متنازعہ حراستی مرکز سے علیحدہ ہے، جہاں اب بھی 15 دہشت گردی کے مشتبہ افراد قید ہیں۔ گوانتانامو بے میں قید کیے جانے والے تارکین وطن کے حوالے سے قانونی پیچیدگیاں اور بین الاقوامی ردعمل بھی ایک اہم معاملہ ہے۔ اس وقت امریکہ میں امیگریشن عدالتوں میں 3.7 ملین کیسز کا بیک لاگ موجود ہے، جس کی وجہ سے زیر حراست افراد کو اپنے مقدمات کے فیصلے کے لیے مہینوں یا سالوں تک کا انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس ضمن میں گوانتانامو بے، جو کیوبا کے علاقے میں واقع ہے لیکن امریکہ کے کنٹرول میں ہے، اس متنازعہ فیصلے پر کیوبا کی حکومت نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ کیوبا کے صدر میگوئل ڈیاز کینیل نے اس اقدام کو “بربریت” قرار دیتے ہوئے سوشل میڈیا پر کہا: کہ “ایک وحشیانہاقدام کے طور پر، نئی امریکی حکومت اعلان کرتی ہے کہ وہ گوانتانامو نیول بیس، جو غیرقانونی طور پر ہمارے علاقے میں قائم ہے، میں زبردستی بے داخل کیے گئے ہزاروں تارکینوطن کو قید کرے گی اور انہیں وہاں تشدد اور غیر قانونی حراست کے بدنام زمانہ جیلوں کےساتھ رکھے گی۔ یہ پہلی بار نہیں کہ گوانتانامو بے کو تارکین وطن کے حراستی مرکز کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہو۔ 1990 کی دہائی کے اوائل میں، ہزاروں ہیٹی کے شہریوں کو اس بیس میں قید رکھا گیا تھا، جن میں وہ افراد بھی شامل تھے جو ایچ آئی وی سے متاثر تھے اور جنہیں اس وقت امریکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ اگر صدر ٹرمپ کا یہ منصوبہ عملی شکل اختیار کرتا ہے، تو یہ امریکہ کی امیگریشن پالیسی میں ایک بڑا اور متنازعہ موڑ ثابت ہو سکتا ہے، جو انسانی حقوق کے اداروں اور بین الاقوامی برادری کی جانب سے شدید تنقید کا باعث بن سکتا صدر ٹرمپ کا یہ اعلان ان کی سخت گیر امیگریشن پالیسیوں کا ایک تسلسل ہے، جس کا مقصد غیر قانونی تارکین وطن کو امریکہ میں داخل ہونے یا رہنے سے روکنا ہے۔ تاہم، اس فیصلے کے قانونی، انسانی حقوق سے متعلق اور سفارتی اثرات پر ابھی بھی سوالیہ نشان موجود ہیں۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا یہ منصوبہ عملی طور پر نافذ ہو پاتا ہے یا نہیں، اور اگر ہوتا ہے تو اس کے امریکہ اور بین الاقوامی برادری پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ لیکن اس اعلان کے بعد یہاں رہنے والی امگرینٹ کمیونٹی میں شیدید خوف وحراس کے سائیے منڈلارہے ہیں، اور وہ اپنے امریکہ میں مستقبل سے مایوس نظر آرہے ہیں ،


اپنا تبصرہ لکھیں