ٹرمپ انتظامیہ کی بڑے پیمانے پر غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کارروائی کا آغاز: متعد گرفتار، سینکڑوں کو ملک بدر کردیا گیا۔

ٹرمپ انتظامیہ کی بڑے پیمانے پر غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کارروائی کا آغاز: متعد گرفتار، سینکڑوں کو ملک بدر کردیا گیا۔


‎رپورٹ : راجہ زاہد اختر خانزادہ

‎ٹیکساس : امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ
‎کی انتظامیہ نے غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف وسیع پیمانے پر کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ جمعرات کے روز 538 غیر قانونی تارکین وطن کو گرفتار کیا گیا، جن میں ایک مشتبہ دہشت گرد، Tren de Aragua گینگ کے چار ارکان، اور کئی ایسے افراد شامل ہیں جو بچوں کے خلاف جنسی جرائم میں ملوث تھے۔ مزید برآں، سینکڑوں افراد کو فوجی طیاروں کے ذریعے ملک بدر کر دیا گیا۔دفاعی حکام کے مطابق، دو فوجی طیارے گواتیمالا روانہ کیے گئے، جنہوں نے 265 افراد کو ڈیپورٹ کیا۔ پہلا طیارہ ریاست ٹیکساس کے شہر ایل پاسو سے 80 افراد کے ساتھ روانہ ہوا جبک دوسرا طیارہ ٹکسن سے روانہ ہوا، جس میں بھی 80 افراد سوار تھے اسطرح تیسرا طیارہ دوبارہ ریست ٹیکساس سے ایل پاسو سے روانہ ہوا، جس میں 105 افراد موجود تھے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے شمالی کیرولائنا میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا، “ہم خطرناک اور سخت مجرموں کو نکال رہے ہیں۔ یہ لوگ بدترین جرائم میں ملوث رہے ہیں، اور ہم ان پر پہلے توجہ دے رہے ہیں۔”
‎ٹرمپ کے آنے کے بعد امریکہ بھر میں فوجی اور سرحدی آپریشنز میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ٹرمپ انتظامیہ نے امیگریشن قوانین کے نفاذ کے لیے فوجی اور دیگر وسائل کو بڑھانے کے بھی احکامات جاری کیے ہیں جبکہ 1,500 اضافی فوجی اہلکاروں کو سرحد پر تعینات کرنے کے لیے ایک ایگزیکٹو آرڈر بھی جاری کیا گیا۔ جبکہ دفاعی حکام نے مزید 10,000 فوجی تعینات کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ریاست ٹیکساس میں میکسیکو سرحد پر خاردار تاروں اور رکاوٹوں کی تعمیر کے لیے فوج کی مدد لی جا رہی ہے۔ امریکہ میں امیگریشن قوانین میں سختی کے بعد امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (ICE) کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے افراد کو فوری طور پر ڈیپورٹ کریں اور انہیں پناہ کی درخواست دینے کا موقع نہ دیں۔ امریکہ بھر میں ان واقعات کے بعد نیو جرسی کے شہر نیوارک کے میئر رس باراکا نے الزام لگایا ہے کہ ICE کے اہلکاروں نے بغیر وارنٹ شہریوں اور غیر قانونی تارکین وطن کو حراست میں لیا، جن میں ایک سابق فوجی بھی شامل تھا۔

‎امریکی میڈیا کے مطابق، میکسیکو نے ابتدائی طور پر جمعرات کو ایک امریکی فوجی طیارے کو اپنے ملک میں اترنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ تاہم، امریکی حکام کے مطابق، یہ معاملہ ایک انتظامی مسئلہ تھا جسے جلد ہی حل کر لیا گیا۔ میکسیکو نے چار پروازوں کو قبول کیا، جو آئیس ایئر آپریشنز کی جانب سے حکومت کے چارٹرڈ طیارے تھے اور فوجی طیارے نہیں تھے۔

‎جمعرات کو دو طیارے گوئٹے مالا گئے، جو ایئر فورس کے سی-17 طیارے تھے، اور ہر ایک پر تقریباً 80 افراد سوار تھے۔ اس کے علاوہ، جمعہ کے روز امریکہ سے گوئٹے مالا کے لیے تین پروازیں روانہ ہوئیں، جن کے ذریعے گوئٹے مالا کے تقریباً 265 شہریوں کو ان کے آبائی ملک واپس بھیجا گیا۔
‎واضح رہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد سے امریکہ اور میکسیکو، جو کہ طویل عرصے سے اتحادی اور پڑوسی ہیں، کے تعلقات میں تناؤ بڑھا ہے۔ ٹرمپ نے میکسیکو پر 25 فیصد یکساں ٹیرف عائد کرنے کی دھمکی دی ہے تاکہ میکسیکو کے راستے امریکہ میں داخل ہونے والے تارکین وطن کو روکا جا سکے، تاہم ابھی تک یہ ٹیرف نافذ نہیں کیا گیا ہے۔ امریکہ میں حقوق انسانی کی تنظیموں نے امیگریشن پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اس کریک ڈاؤن سے شہریوں اور قانونی حیثیت رکھنے والے افراد کو بھی غلطی سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، 2015 سے 2020 کے درمیان 70 امریکی شہریوں کو غلطی سے ڈیپورٹ کیا گیا تھا۔
‎واضع رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اپنے دوسرے دور حکومت کے آغاز پر امیگریشن کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا ہے۔ تاہم، اس مہم انسانی حقوق اور قانونی طریقہ کار کی مبینہ خلاف ورزیوں پر تنقید بھی کی جا رہی ہے۔ دوسری جانب وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولین لیوٹ کے مطابق، 538 گرفتار افراد میں سے 373 مجرمانہ ریکارڈ رکھتے تھے، جبکہ 165 افراد کو صرف امیگریشن قوانین کی خلاف ورزی پر گرفتار کیا گیا۔ سینئر انتظامیہ افسران کے مطابق، 1,041 افراد کو جمعرات کو ڈیپورٹ کیا گیا۔


اپنا تبصرہ لکھیں