'مکمل اور مکمل جنگ بندی': امریکہ اور عالمی رہنماؤں نے حماس-اسرائیل معاہدے کی تعریف کی

‘مکمل اور مکمل جنگ بندی’: امریکہ اور عالمی رہنماؤں نے حماس-اسرائیل معاہدے کی تعریف کی


بین الاقوامی کمیونٹی نے حماس اور اسرائیل کے درمیان تاریخی جنگ بندی معاہدے کے بعد سکون کا سانس لیا تاکہ غزہ میں 15 ماہ طویل جنگ کا خاتمہ کیا جا سکے۔ یہ معاہدہ امریکہ، قطر اور مصر کی ثالثی میں طے پایا ہے، جس میں ایک مرحلہ وار طریقہ کار شامل ہے جس کی ابتدا چھ ہفتوں کی جنگ بندی سے ہو گی، اسرائیلی افواج کا غزہ سے انخلا، اور حماس کے ذریعے اسرائیل میں قید فلسطینی قیدیوں کے بدلے میزبانوں کی رہائی۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے معاہدے کی تصدیق کی اور کہا کہ یہ جنگ بندی غزہ میں لڑائی کو روک دے گی اور فلسطینی شہریوں تک امدادی سامان پہنچنے کی اجازت دے گی۔ اس معاہدے کا مقصد یہ بھی ہے کہ میزبان اپنے خاندانوں کے ساتھ دوبارہ ملیں۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے معاہدے پر اطمینان کا اظہار کیا اور اس بات پر زور دیا کہ امریکہ یہ یقینی بنائے گا کہ غزہ دوبارہ دہشت گردوں کی پناہ گاہ نہ بنے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹریس نے اس معاہدے کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ اقوام متحدہ اس کے نفاذ کی حمایت کرے گا۔ ترکی، مصر اور جرمنی جیسے ممالک کے رہنماؤں نے بھی اس معاہدے کی تعریف کی، جبکہ ترکی کے وزیر خارجہ حاکان فدان نے اسے علاقائی استحکام کے لیے ایک اہم قدم قرار دیا اور مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے انسانی امداد کی فوری ترسیل پر زور دیا۔

حماس نے اپنے غزہ کے عبوری سربراہ خلیل الحیہ کے بیان میں کہا کہ اسرائیل غزہ میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے، اور یہ کہ وہ نہ معاف کریں گے نہ بھولیں گے۔


اپنا تبصرہ لکھیں