جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے انتخابات میں عوامی مینڈیٹ چھیننے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے بدھ کے روز کہا کہ ادارے انتخابات کے نتائج میں ہیرا پھیری کرکے اپنے اقتدار کو مضبوط کرتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے اپنے عوامی خطابات میں 8 فروری 2024 کے عام انتخابات کو 2018 کے انتخابات سے زیادہ دھاندلی زدہ قرار دیا ہے۔ گزشتہ ہفتے، فضل کی قیادت میں پارٹی نے بلوچستان کے حلقہ پی بی-45 (کوئٹہ-8) کے 5 جنوری کے ضمنی انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف پہیہ جام ہڑتال کی، جس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی پی پی کے امیدوار کو کامیاب قرار دیا۔
لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا نے کہا: “ادارے اپنی اتھارٹی مضبوط کرنے کے لیے انتخابات کے نتائج میں مداخلت کرتے ہیں، جبکہ سیاستدان بھی اقتدار کے لیے اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کرتے ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ سیاستدانوں کی کمزوریوں کی وجہ سے آمرانہ قوتیں مزید مضبوط ہو رہی ہیں۔
“کوئی بھی ادارہ جو آئین کے طے کردہ حدود سے تجاوز کرے، اسے اپنے رویے پر غور کرنا چاہیے،” مولانا نے کہا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے مزید کہا کہ جے یو آئی (ف) نے بلوچستان کے ضمنی انتخابات جیتے تھے، جیسا کہ فارم-45 کے مطابق تھا۔
“المیہ یہ ہے کہ یہ دوسرا انتخاب ہے جس سے لوگ خوش نہیں ہیں،” انہوں نے کہا۔
مولانا نے تمام اداروں کو آئینی حدود میں رہنے پر زور دیتے ہوئے کہا: “آج پارلیمنٹ بے اثر ہو چکی ہے۔”
انہوں نے ملک میں نئے انتخابات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا: “اگر دھاندلی شدہ انتخابات کی گنجائش ہے تو پھر جلد انتخابات کیوں نہیں ہو سکتے؟”
سوال کے جواب میں مولانا نے حکمران اتحاد اور پی ٹی آئی کے درمیان جاری مذاکرات پر اطمینان کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا: “میں ایک سیاستدان ہوں اور ہمیشہ مذاکرات کی حمایت کرتا ہوں۔ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان بات چیت سے اچھی امیدیں ہیں۔”
مولانا نے کہا کہ سیاستدانوں کو جیل میں نہیں ہونا چاہیے۔
“میں چاہتا ہوں کہ مسائل مذاکرات کے ذریعے حل ہوں،” مولانا نے کہا۔