“شہید اعتزاز حسن صرف ہمارا بیٹا نہیں بلکہ پوری قوم کا بیٹا تھا،” اعتزاز کے والد
جنوری 6، 2014 کو خیبر پختونخوا کے ضلع ہنگو کو ایک بڑے سانحے سے اعتزاز حسن کی بہادری کی بدولت بچایا گیا۔ نویں جماعت کے طالب علم، اعتزاز نے اپنی جان قربان کر کے خودکش حملہ آور کو اسکول کے باہر دھماکہ کرنے سے روک دیا، جس سے 400 سے زیادہ طلبہ کی زندگیاں بچ گئیں۔ ان کی بہادری پر بعد از وفات ستارہ شجاعت سے نوازا گیا۔
آج ان کی شہادت کی دسویں برسی ہے، ایک ایسا موقع جس پر ان کی بے مثال قربانی اور جرات کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
وزیر اعظم نے کہا، “آج ہم ضلع ہنگو کے اس عظیم بیٹے، شہید اعتزاز حسن کی شہادت کو یاد کرتے ہیں، جن کی غیر معمولی جرات امید اور حوصلے کی علامت ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ 15 سال کی عمر میں اعتزاز نے اپنی زندگی کی قربانی دے کر اسکول اور ساتھی طلبہ کو ایک تباہ کن حملے سے بچایا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اعتزاز کی قربانی آنے والی نسلوں کے لیے ہمیشہ مشعل راہ رہے گی۔
تاہم، ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے کیے گئے وعدے پورے نہیں ہوئے۔ شہید کے والد، مجاہد علی، نے کہا، “شہید اعتزاز حسن صرف ہمارا نہیں بلکہ پوری قوم کا بیٹا تھا۔ لیکن افسوس کہ حکومت کے وعدے آج تک پورے نہیں ہوئے۔”
اعتزاز کے ساتھی طلبہ انہیں ایک ہیرو کے طور پر یاد کرتے ہیں اور ان کی قربانی کا شکر گزار ہیں، جو ان کی زندگی اور خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کے قابل بنائی۔ ان کے سابقہ ساتھی، یاسر حسین، نے کہا، “ہم سب ان کی بہت یاد کرتے ہیں اور حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ ان کی شہادت کی یاد میں وعدے پورے کیے جائیں۔”
حکومت کی جانب سے اس وقت کھیل کے میدان اور ڈگری کالج بنانے کا وعدہ کیا گیا تھا، لیکن یہ وعدے تاحال ادھورے ہیں، جس سے ان کے اہل خانہ اور مقامی کمیونٹی مایوس ہیں۔