خیبر پختونخوا حکومت نے اعلان کیا ہے کہ کرم ضلع میں کسی بھی فریق کی جانب سے جارحیت کو مورچوں کے خاتمے کے بعد دہشتگردی کے طور پر لیا جائے گا۔ وزیر اعلیٰ کے مشیر بیرسٹر محمد سیف نے جمعہ کو کہا کہ ایپکس کمیٹی کے فیصلے کے تحت کرم کو ہتھیاروں اور مورچوں سے پاک کیا جائے گا تاکہ دیرپا امن قائم ہو۔
بیرسٹر سیف نے واضح کیا کہ تنازع میں ملوث دونوں فریقوں کو ہتھیار ڈالنے کے لیے 15 دن میں ایک تفصیلی منصوبہ جمع کروانے کا حکم دیا گیا ہے۔ عوامی مقامات پر ہتھیاروں کی نمائش اور استعمال پر سخت پابندی ہوگی، اور ہتھیاروں کی خریداری کے لیے فنڈز جمع کرنے پر بھی پابندی عائد کی جائے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ نئے مورچے بنانے کی اجازت نہیں ہوگی، اور تمام موجودہ مورچے ایک ماہ کے اندر ختم کیے جائیں گے۔ اس کے بعد کسی بھی فریق کی جانب سے جارحیت کو دہشتگردی تصور کرکے سخت کارروائی کی جائے گی۔
ضلع انتظامیہ نے تصدیق کی ہے کہ پشاور-پاراچنار ہائی وے جلد قافلوں کے لیے دوبارہ کھولی جائے گی، اور راستے میں کسی قسم کی رکاوٹ کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
دو متحارب قبائل نے بالآخر ایک امن معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جو ایک عظیم جرگے کے بعد طے پایا۔ اس جرگے میں 50 اجلاس منعقد کیے گئے، جن میں تمام فریقین نے کلیدی کردار ادا کیا۔ معاہدے کے تحت کرم میں امن قائم کرنے کے لیے 14 نکات طے کیے گئے۔
کرم، جو افغانستان کی سرحد کے قریب واقع ہے، طویل عرصے سے فرقہ وارانہ تنازعات کا شکار رہا ہے۔ حالیہ جھڑپوں کے باعث گزشتہ چند مہینوں میں 200 سے زائد افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
نومبر میں جھڑپوں نے انسانی بحران کو مزید سنگین کر دیا، جہاں اہم ادویات اور آکسیجن کی کمی پیدا ہو گئی۔ حکومتی عہدیداروں نے ہنگامی بنیادوں پر امدادی سامان پہنچانے اور شدید بیمار لوگوں کو نکالنے کی کوشش کی ہے۔ حکومت نے کرم کو آفت زدہ علاقہ قرار دیتے ہوئے مورچوں کے خاتمے اور ہتھیاروں کی بندش کو امن کے قیام کے لیے ضروری قرار دیا ہے۔