نئی دہلی: منموہن سنگھ کی تدفین اور عالمی سطح پر غم کا اظہار
بھارت کے سابق وزیرِ اعظم منموہن سنگھ کو ہفتہ کے روز مکمل ریاستی اعزازات کے ساتھ دہلی کی یمنا دریا کے کنارے جلا دیا گیا۔ ان کی تدفین سکھ روایات کے مطابق کی گئی، جس میں راہبوں نے گیت گائے، اور ان کی تدفین کے دوران جسم پر بھارتی پرچم ڈھکا گیا تھا۔
منموہن سنگھ کی زندگی اور سیاسی ورثہ
92 سال کی عمر میں منموہن سنگھ کا انتقال 26 دسمبر کو ہوا تھا، جس کے بعد بھارت اور دنیا بھر میں ان کی موت پر غم کا اظہار کیا گیا۔ سنگھ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کی قیادت کو ابتدائی طور پر کمزور سمجھا گیا تھا، خاص طور پر ان کی حکومت میں ہونے والے بدعنوانی کے الزامات کے باوجود، لیکن بعد میں ان کی خدمات کو سراہا گیا۔ ان کے دورِ اقتدار میں بھارت کی معیشت میں نمایاں تبدیلیاں آئیں، اور انہیں بھارت کی اقتصادی لبرلائزیشن کا معمار قرار دیا گیا۔
وزیراعظم مودی اور عالمی رہنماؤں کا اظہار افسوس
وزیراعظم نریندر مودی نے سنگھ کی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں “قوم کے عظیم ترین رہنماؤں” میں شمار کیا۔ اسی طرح صدر دروپدی مرمو اور دیگر عالمی رہنما، جیسے امریکی صدر جو بائیڈن، نے ان کی خدمات کو یاد کرتے ہوئے سنگھ کو ایک “سچے ریاستی رہنما” کے طور پر یاد کیا۔ بائیڈن نے کہا کہ منموہن سنگھ نے “ایسی راہ ہموار کی جو آنے والی نسلوں تک ہمارے ممالک اور دنیا کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگی۔”
سنگھ کی زندگی کا سفر
منموہن سنگھ کا جنم 1932 میں موجودہ پاکستان کے شہر چکوال کے گاؤں گاہ میں ہوا تھا، جہاں انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ سنگھ نے کیمبرج اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے اقتصادیات میں تعلیم حاصل کی اور بعد ازاں عالمی اداروں اور بھارت کی مرکزی بینک میں اہم عہدوں پر کام کیا۔ 1991 میں، انہوں نے وزیرِ خزانہ کے طور پر بھارت کو مالی بحران سے نکالنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 2004 میں انہیں بھارتی نیشنل کانگریس کا امیدوار بنایا گیا اور وہ وزیراعظم منتخب ہوئے۔
سنگھ کی وراثت
سنگھ کو ہمیشہ بھارت کی خدمت، بے داغ سیاسی زندگی اور بے پناہ انکساری کے لیے یاد کیا جائے گا۔ ان کے انتقال کے بعد عالمی سطح پر ان کی سیاسی وراثت کو تسلیم کیا گیا، اور انہیں ایک مثالی رہنما کے طور پر یاد کیا جائے گا۔