جوابی کالم: جادو کا کارخانہ یا حقیقت کا آئینہ
تحریر: راجہ زاہد اختر خانزادہ
پاکستانی سیاست کے پیچیدہ اور دیومالائی مناظر سہیل وڑائچ جیسے زیرک قلم کار کی طنز و مزاح پر مبنی تحریروں کے لیے زرخیز میدان ہیں۔ سہیل وڑائچ صاحب کا حالیہ کالم “یہ سب جادو کا کارخانہ ہے” نے پاکستان میں روحانیت، جادو ٹونے، اور سیاسی بیانیوں کو ایسے دلچسپ انداز میں جوڑا کہ حقیقت اور تخیل کی سرحدیں دھندلا گئیں۔ یہ سیاسی طنز و مزاح کا ایک ایسا شاہکار ہے جس میں انہوں نے پاکستان کی سیاسی کشمکش کو دیومالائی داستان کے قالب میں ڈھالا ہے۔ تاہم، اس طنزیہ تحریر کے جواب میں، ڈاکٹر شہباز گل کا جوابی خط “صحافتی بواسیر” اس ادبی اور طنزیہ تحریر کی گہرائی کو سمجھے بغیر ذاتی حملوں تک محدود رہا، جس میں ایک معیاری صحافتی بحث کے موقع کو ضائع کیا گیا۔ جو زبان اور رویہ اپنایا گیا، وہ نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ صحافتی اور سیاسی مباحثے کے معیار کو بھی مجروح کرتا ہے۔ سہیل وڑائچ کا کالم دیومالائی کہانیوں، روحانیت اور جادوئی استعاروں کے ذریعے موجودہ سیاسی حالات پر ایک تخلیقی تبصرہ ہے۔ ان کا مقصد حکومت، اپوزیشن، اور سیاسی رہنماؤں کے بیانیے کو ایک ادبی پیرائے میں پیش کرنا تھا۔ کالم میں لفظ “ڈونکی راجہ” اور “ملکھ” جیسے الفاظ بھی طنزیہ استعارے ہیں جوکہ پاکستانی (پی ٹی آئی) کی سیاست کے عمومی بیانیے میں پہلے سے موجود ہیں۔ بد قسمتی سے، اس کے جواب میں پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر شہباز گل کی طرف سے جو کھلا خط سامنے آیا، اس میں ذاتی حملے اور نازیبا زبان کا استعمال کیا گیا۔ سہیل وڑائچ جیسے سینئر صحافی پر نہ صرف غیر اخلاقی الزامات لگائے گئے بلکہ ان کی شخصیت اور ان کی صحافتی قابلیت پر بھی بھونڈا طنز کیا گیا، جو کسی بھی معیاری سیاسی مباحثے کے لیے انتہائی نامناسب ہے۔ سہیل وڑائچ کی تحریر ایک طنزیہ کہانی ہے جو پاکستان کے موجودہ سیاسی ماحول کی عکاسی کرتی ہے۔ انہوں نے پاکستانی سیاست خصوصنا پی ٹی آئی کی سیاست میں روحانیت اور جادو ٹونے کے اثرات پر روشنی ڈالی، جوکہ ماضی میں کئی بار حکومتی پالیسیوں اور عوامی تاثرات کا حصہ بنتے رہے ہیں۔ بشریٰ بی بی کے روحانی عقائد اور ان کی مبینہ آڈیوز پاکستانی سیاسی بیانیے میں ایک عرصے سے موضوعِ بحث ہیں۔ وڑائچ نے ان واقعات کو لطیف پیرائے میں پیش کیا، جہاں موکل، جن، اور روحانی جنگوں کا ذکر دراصل طاقت کے کھیلوں اور سیاسی چالاکیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ انہوں نے ڈونکی راجہ اور رانی جیسے استعارے استعمال کرکے ایک حقیقت پسندانہ مگر تخیلاتی کہانی تشکیل دی، جس کا مقصد عوامی شعور کو جھنجھوڑنا تھا۔ ڈاکٹر شہباز گل کا یہ کہنا کہ سہیل وڑائچ نے بشریٰ بی بی کی “عزت” پر حملہ کیا، صریحاً غلط ہے۔ وڑائچ صاحب نے کہیں بھی ان کا نام تک نہیں لیا اور ذاتیات پر مبنی کوئی ایسا جملہ نہیں لکھا جسے خواتین کی تضحیک کے زمرے میں لایا جا سکے۔ انہوں نے اشارے کنائیوں میں بشریٰ بی بی کو ایک سیاسی شخصیت کے طور پر ایک دیومالائی کردار میں پیش کیا، جیسا کہ وہ اپنی تحریروں میں اکثر کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے، شہباز گل نے وڑائچ کی تخلیقی تحریر کو ذاتی حملے کے طور پر لیا اور اپنے جواب میں طنز کو “صحافتی بواسیر” قرار دے دیا۔ ان کے خط کا لب و لہجہ غصے اور جارحیت پر مبنی تھا، جو ایک سنجیدہ سیاسی کارکن اور پارٹی رہنما کے شایان شان نہیں۔ گل نے سہیل وڑائچ پر “درباری صحافت” کا الزام لگا کر معاملے کو ذاتی بنا دیا، جبکہ وڑائچ کا کالم عمومی سیاسی رویوں، پی ٹی آئی قیادت کے غیر منطقی بیانات، اور روحانیت سے جڑی بے بنیاد افواہوں کی نقالی پر تھا۔ اس طرح گل کا یہ خط اصل موضوع سے ہٹ کر محض دفاعی طرز عمل بن کر رہ گیا۔ اگر سیاسی بیانیے میں خواتین کے احترام کا سوال اٹھایا جا رہا ہے تو ہمیں ماضی میں اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کے بیانات اور جلسوں میں ہونے والی ذاتی حملوں پر بھی غور کرنا ہوگا۔ خواتین کو سیاسی طنز کا نشانہ بنانا واقعی افسوسناک ہے، مگر سہیل وڑائچ نے ایسا نہیں کیا۔ سیاسی طنز ایک معتبر صحافتی اسلوب ہے جو سنجیدہ موضوعات کو عام فہم اور دلچسپ انداز میں پیش کرتا ہے۔ سہیل وڑائچ نے اپنے کالم میں ایسے ہی طنزیہ انداز سے پاکستانی سیاست کی حقیقت کو اجاگر کیا۔ شہباز گل جیسے رہنماؤں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ جمہوری معاشروں میں طنز اور تنقید کو دشمنی سمجھنے کے بجائے خود احتسابی کا ذریعہ بنانا چاہیے۔ دنیا بھر میں سیاسی طنز ادبی تخلیق کا ایک اہم حصہ رہا ہے۔ سیاستدانوں کو طنزیہ تحریروں اور کارٹونوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور یہ جمہوریت کا ایک لازمی جز ہے۔ صحافیوں پر حملے کرنا یا انہیں گالیوں کا نشانہ بنانا نہ تو سیاست کو مضبوط کرتا ہے اور نہ ہی عوام کے مسائل حل کرتا ہے۔ سہیل وڑائچ کی تحریر ان کے تجربے اور ادبی مہارت کا مظہر ہے، جو نہ صرف پاکستانی سیاست کی حقیقتوں کو عیاں کرتی ہے بلکہ عوام کو سوچنے پر مجبور بھی کرتی ہے۔ اس طرح شہباز گل کا جوابی خط ایک کھوکھلی جذباتی دفاع سے زیادہ کچھ نہیں۔ سیاسی رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ تنقید کا سامنا مثبت انداز میں کریں اور اسے جمہوریت کا حصہ سمجھیں، کیونکہ صحافت کا کام حقیقت کے پردے اٹھانا ہے، خواہ وہ جادو کا کارخانہ ہو یا اقتدار کا ایوان۔ سہیل وڑائچ نے ماضی میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی اہلیہ اور ان کے والد میاں شریف کا ایک ایسا ہی طنزیہ خط تحریر کیا تھا کیونکہ وہ پی ٹی آئی مخالف پارٹی کے تھے تو اس وقت تو پی ٹی آئی والے کسی ایک رہنما نے اسپر کوئی تنقید نہیں کی کیونکہ یہ کالم نواز شریف کے خلاف تھا تاہم اب جب انکی باری آئی اور انکو حدف تنقید بنایا گیا تو وہ پھٹ پڑے اور اسی صحافی کو جو کہ ان کی نظر میں پہلے اچھا تھا وہ اب درباری ہو گیا؟سیاسی طنز کے جواب میں غیر شائستہ زبان اور ذاتی حملے پاکستان کے سیاسی اور صحافتی ماحول کو مزید زہر آلود بنارہے ہیں۔ اختلاف رائے کا مطلب ذاتی دشمنی نہیں ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر شہباز گل جیسے سیاسی رہنما کو تنقید کا جواب تحمل، دلیل اور شائستگی کے ساتھ دینا چاہیے تاکہ عوام کے سامنے ایک بہتر مثال پیش کی جا سکے۔ سہیل وڑائچ کے کالم کو سطحی طور پر صرف ایک کہانی کے طور پر بھی دیکھنا غلط ہوگا۔ ان کی تحریر میں اشٹبلشمنٹ سے محبت اور جدائی کے فلسفے کو انسانی رویوں، رشتوں اور وقت کی بے رحم حقیقتوں کے تناظر میں پیش کیا گیا ہے۔ وہ زندگی کی اس سچائی کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہر رشتہ ہمیشہ قائم نہیں رہتا اور ہر خوشگوار لمحہ عارضی ہوتا ہے۔ یہ صرف کہانی نہیں، بلکہ زندگی کا وہ سبق ہے جس سے ہم سب کو گزرنا پڑتا ہے۔
سہیل وڑائچ کی تحریر صرف جذباتی بیانیہ نہیں بلکہ حقیقت اور ادبی خوبصورتی کا امتزاج ہے۔ ان کی تحریر ایک آئینہ ہے جس میں ہم اپنی کامیابیاں، ناکامیاں، خوشیاں اور دکھ دیکھ سکتے ہیں۔ ان کا اندازِ تحریر قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ محبت، رشتے اور زندگی کے پیچیدہ پہلوؤں کو کیسے بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے