اسلام آباد احتجاج: حامد میر کا چشم دید احوال، سوالات اور حقائق


اسلام آباد احتجاج: حامد میر کا چشم دید احوال، سوالات اور حقائق

تحریر: راجہ زاہد اختر خانزادہ

اسلام آباد کے ڈی چوک میں ہونے والے احتجاج کے دوران حالات جب کشیدہ ہو گئے تو اس علاقہ کو ریڈ زون قرار دیے جانے کی بعد  علاقے میں فوج کو طلب کر لیا گیا تھا ۔ معروف صحافی حامد میر، جو اس احتجاج کی کوریج کے دوران میدان میں موجود تھے، نے اپنی روداد ڈان ٹی وی کے ساتھ شیئر کی۔ ان کی تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ احتجاج کے دوران نہ صرف حالات بدتر تھے بلکہ کئی ایسے انکشافات بھی ہوئے جو اب بھی توجہ کے منتظر ہیں۔

حامد میر نے بتایا کہ احتجاج کے دوران آنسو گیس کی شدت اور گولیوں کی گونج کے باوجود اپنی صحافتی ذمہ داریاں ادا کیں۔ ایک نوجوان، شفیق لنڈ، ان کے ساتھ رہا اور انہیں پانی، نمک، اور آنکھوں میں عرقِ گلاب کا سپرے فراہم کرتا رہا تاکہ وہ اپنی کوریج جاری رکھ سکیں۔ بعد میں یہ معلوم ہوا کہ شفیق لنڈ اس دوران گولی لگنے سے جاں بحق ہو چکا تھا۔ حامد میر نے یہ بھی انکشاف کیا کہ پی ٹی آئی کے کچھ افراد نے انہیں خبردار کیا تھا کہ قریبی عمارتوں میں سنائپرز شوٹر موجود ہیں اور انہیں نشانہ بنا کر ان کی موت کو پی ٹی آئی کے خلاف سازش کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ بات سن کر وہ علاقے سے ہٹ گئے، لیکن ان کے کچھ ساتھیوں نے ایسی ویڈیوز دکھائیں جن میں زخمی افراد، بشمول شفیق لنڈ، اسپتال منتقل کیے جا رہے تھے۔ تاہم اسپتال کے ترجمان نے اس بات کی تردید کی کہ وہاں کوئی زخمی آیا ہے۔

دوسری جانب صحافی مطیع اللہ جان، جنہیں احتجاج کی رات گرفتار کر لیا گیا تھا، نے دعویٰ کیا کہ ایک اہم رجسٹر، جو اموات کی تفصیلات پر مبنی تھا، اسپتال کی ایمرجنسی سے غائب کر دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس رجسٹر میں رینجرز اہلکاروں کی جانب سے تیار کردہ ڈیٹھ سرٹیفیکیٹس موجود تھے، جنہیں جان بوجھ کر ہٹا دیا گیا تاکہ مرنے والوں کی اصل تعداد چھپائی جا سکے۔ یہ تمام واقعات ایک بڑا سوالیہ نشان چھوڑتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے مرنے والوں کی لاشوں کو کیوں غائب کیا گیا؟ احتجاج کے دوران کتنے افراد اپنی جان سے گئے، یہ سوال اب بھی جواب طلب ہے۔

حامد میر نے اس پورے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، اور انسانیت ہمیشہ سیاست کی سنگدلی کے سامنے قربان ہو جاتی ہے۔ انہوں نے شفیق لنڈ جیسے نوجوان کی قربانی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعات ہمارے معاشرتی اصولوں اور سیاسی رویوں پر سوال اٹھاتے ہیں۔احتجاج کے دوران ہونے والے ان واقعات نے حکومت، اپوزیشن، اور اداروں کے کردار پر سنگین سوالات کھڑے کیے ہیں۔ عوام کے جان و مال کے تحفظ میں ناکامی اور اموات کو چھپانے کی کوششیں نہ صرف قابل مذمت ہیں بلکہ یہ ایک بڑے بحران کی نشاندہی کرتی ہیں، جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔


اپنا تبصرہ لکھیں