معروف صحافی متی اللہ جان کو دہشت گردی اور منشیات رکھنے کے الزامات میں دو روزہ پولیس ریمانڈ پر بھیج دیا گیا، جس پر صحافتی حلقوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید احتجاج کرتے ہوئے ان الزامات کو بے بنیاد اور سیاسی انتقام قرار دیا۔
گرفتاری کی تفصیلات
متی اللہ جان کو اسلام آباد کے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کی پارکنگ سے گزشتہ رات نامعلوم افراد نے مبینہ طور پر اغوا کیا۔ بعد ازاں پولیس نے ان پر 246 گرام کرسٹل میتھ رکھنے اور دہشت گردی کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا۔
ایف آئی آر کے مطابق، اسلام آباد کے ای-9 سیکٹر میں جان کی گاڑی کو روکا گیا، جہاں انہوں نے مبینہ طور پر مزاحمت کی، ایک کانسٹیبل پر حملہ کیا، اور اس سے اسلحہ چھین لیا۔ مزید تلاشی کے دوران ان کی گاڑی سے منشیات برآمد کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔
عوامی ردعمل
متی اللہ جان کی گرفتاری پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور صحافتی حلقوں نے سخت ردعمل ظاہر کیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس گرفتاری کو “غیر منصفانہ” اور الزامات کو “سیاسی بنیاد پر” قرار دیا۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) نے فوری رہائی کا مطالبہ کیا اور صحافیوں کے خلاف ایسے اقدامات کو قابل مذمت قرار دیا۔
انسانی حقوق کی وکیل ایمان مزاری نے پولیس اسٹیشن کا دورہ کرنے کے بعد بتایا کہ متی اللہ جان کو کسی نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے، جس سے ان کی حفاظت کے حوالے سے مزید خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔
پس منظر اور ردعمل
متی اللہ جان کو حساس قومی معاملات پر رپورٹنگ کے لیے جانا جاتا ہے۔ ان کے بیٹے کا کہنا ہے کہ ان کی گرفتاری حالیہ پی ٹی آئی احتجاج میں زخمیوں اور ہلاکتوں کی رپورٹنگ کی وجہ سے ہوئی۔ معروف صحافتی اور سیاسی شخصیات نے ان کی گرفتاری کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
وسیع تر اثرات
متی اللہ جان کی گرفتاری نے پاکستان میں صحافتی آزادی کے حوالے سے تشویشات کو بڑھا دیا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے اقدامات جمہوریت اور آزاد صحافت کے لیے خطرہ ہیں۔
نتیجہ
متی اللہ جان کی گرفتاری نے پاکستان میں صحافت کی آزادی کے حوالے سے عالمی توجہ مبذول کرائی ہے۔ جب کہ وہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو جاری رکھنے کا عزم رکھتے ہیں، یہ واقعہ ریاستی اداروں اور آزاد صحافت کے درمیان جاری تنازع کی عکاسی کرتا ہے۔