رات بھر کے تشدد میں مزید جانیں ضائع
خیبر پختونخوا کے ضلع کرّم میں جاری قبائلی جھڑپوں کے نتیجے میں اموات کی تعداد 102 تک پہنچ گئی ہے۔ رات بھر ہونے والے واقعات میں مزید تین افراد جاں بحق اور چھ زخمی ہوئے ہیں۔ یہ جھڑپیں مسلسل ساتویں روز جاری ہیں، جن میں مجموعی طور پر 138 افراد زخمی ہو چکے ہیں۔
سیزفائر کی ناکامی
حکومت کی جانب سے سات دن کے لیے کیا گیا جنگ بندی کا معاہدہ کامیاب نہ ہو سکا۔ ایک اعلیٰ سطحی وفد، جس کی قیادت بیرسٹر محمد علی سیف کر رہے تھے، نے دونوں فریقین سے مذاکرات کیے لیکن قیدیوں کے تبادلے اور لاشوں کی واپسی پر تنازعات برقرار ہیں، جو مزید تصادم کا سبب بن رہے ہیں۔
گورنر خیبر پختونخوا کا ردعمل
گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے تشدد کی مذمت کرتے ہوئے جلد از جلد امن کی بحالی پر زور دیا۔ انہوں نے سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کے ساتھ کرّم کا دورہ کرنے اور دسمبر کے پہلے ہفتے میں آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) بلانے کا اعلان کیا۔
عدالتی مداخلت کی اپیل
جماعت اسلامی کے رہنما اسد اللہ بھٹو نے صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے کمیشن قائم کرنے کی اپیل کی ہے تاکہ اس تنازع کو حل کیا جا سکے۔
روزمرہ زندگی پر اثرات
جھڑپوں نے علاقے میں روزمرہ زندگی مفلوج کر دی ہے۔ تعلیمی ادارے، مارکیٹیں اور سڑکیں، بشمول پشاور-پاراچنار روڈ، بند ہیں۔ پاراچنار میں ہزاروں افراد نے دھرنوں میں شرکت کی، جبکہ لاہور اور کراچی میں بھی مظاہرے کیے گئے، جن میں تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا۔
تشدد کا پس منظر
کرّم ضلع طویل عرصے سے قبائلی اور خاندانی جھگڑوں کا شکار رہا ہے۔ حالیہ جھڑپیں خاص طور پر تباہ کن ثابت ہوئی ہیں۔ ماضی میں قبائلی جرگوں کے ذریعے عارضی جنگ بندی ممکن ہوئی تھی، لیکن ایک بار پھر حالات خراب ہو چکے ہی