پی ٹی آئی کے احتجاج کی ناکامی, وجوہات اور ممکنہ اثرات


پی ٹی آئی کے احتجاج کی ناکامی, وجوہات اور ممکنہ اثرات

تحریر و تجزیہ : راجہ زاہد اختر خانزادہ

پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک اور ہنگامہ خیز دن، جب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اپنی بقا کی جنگ لڑنے کے لیے بڑے پیمانے پر احتجاج کا انعقاد کیا، مگر یہ احتجاج اپنی ممکنہ کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ کئی ہزار کارکنوں کی موجودگی کے باوجود یہ مظاہرہ اس بات کا مظہر بن گیا کہ کسی تحریک کو کامیابی کے لیے صرف عوامی طاقت نہیں بلکہ مربوط قیادت، حکمتِ عملی، اور حکومتی رکاوٹوں کا مؤثر جواب دینا ضروری ہے۔

احتجاج کا پس منظر اور تحریک کے عزائم

پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اپنی گرفتاری کے بعد عوام کو ’فائنل کال‘ دے کر ملک میں سیاسی تبدیلی کی امید جگائی۔ خیبرپختونخوا سے بڑی تعداد میں کارکن اسلام آباد پہنچے، لیکن پنجاب اور سندھ سے شرکت نہ ہونے کے برابر رہی۔ اس احتجاج کو عمران خان کی سیاسی حکمت عملی کا نہایت اہم امتحان قرار دیا جا رہا تھا، مگر توقعات کے برخلاف اس تحریک کو کئی محاذوں پر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

ناکامی کی وجوہات

1. قیادت کی کمزوری اور تقسیم
احتجاج کے دوران پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت متحرک نظر نہیں آئی۔ خیبرپختونخوا میں وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے مظاہرین کی قیادت کی، لیکن وہ بھی آخری وقت میں کارکنان کے ساتھ مکمل طور پر کھڑے نظر نہ آئے۔ علی امین گنڈاپور کو احتجاج چھوڑ کر کہیں اور جانے کی کوشش کرتے دیکھا گیا، جس سے کارکنان کی حوصلہ شکنی ہوئی۔

عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے جذباتی تقاریر کیں، لیکن وہ کارکنان کے اندر اعتماد بحال کرنے میں ناکام رہیں۔ ان کا بیان کہ “عمران خان کو لیے بغیر ڈی چوک سے نہیں نکلوں گی”، کارکنان کو متحرک کرنے میں کامیاب رہا  مگر قیادت کے بھاگ جانے کے بعد کارکنوں کو مزید الجھن میں ڈال گیا۔

2. حکومتی رکاوٹیں اور اقدامات

حکومت نے احتجاج کو ناکام بنانے کے لیے سخت اقدامات کیے۔ پنجاب اور اسلام آباد میں اہم راستوں کو کنٹینرز سے بند کر دیا گیا، موٹرویز سیل کی گئیں، اور مظاہرین پر آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔ پنجاب پولیس کی جانب سے ہزاروں کارکنان کی گرفتاریاں ہوئیں، جس نے مظاہرین کی تعداد کو محدود کر دیا تھا مگر خیبر پختونخواہ سے عوام کا جم غفیر انکے ساتھ تھا،

3. پنجاب اور سندھ کے عوام کی عدم شرکت

پنجاب، جو کہ پی ٹی آئی کا ایک بڑا سیاسی گڑھ سمجھا جاتا تھا، اس احتجاج میں پیچھے رہا۔ شوکت بسرا کے مطابق، پنجاب کے مختلف شہروں میں کنٹینرز اور پولیس ناکے کارکنان کے راستے کی بڑی رکاوٹ بنے۔ سندھ میں بھی کراچی کے علاوہ دیگر علاقوں سے محدود شرکت ہوئی۔

4. بین الاقوامی دباؤ اور غیرموثر حکمت عملی

احتجاج کو بین الاقوامی میڈیا اور مبصرین نے توجہ دی، لیکن حکومت نے اس دباؤ کا سامنا کیا۔ امریکی محکمہ خارجہ اور اقوام متحدہ نے پرامن مذاکرات کا مشورہ دیا، مگر ان بیانات کا مظاہرین پر کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔ حالانکہ حکومت بہت انڈر پریشر تھی۔

نتائج اور اثرات

1. سیاسی نقصان

احتجاج کے ناکام ہونے کے بعد تحریک انصاف کو سیاسی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ کارکنان کی بڑی تعداد بغیر مطالبات منوائے واپس گھروں کو لوٹ گئی، جو کہ تحریک کی قیادت کے لیے ایک بڑا دھچکہ ہے۔

2. حکومتی موقف کی مضبوطی

حکومت نے احتجاج کو ناکام بنا کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا اور یہ پیغام دیا کہ وہ کسی بھی قسم کی سیاسی بغاوت کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے۔

3. عسکری اداروں کی مداخلت

آرٹیکل 245 کے تحت اسلام آباد میں فوج تعینات کی گئی، جس نے مظاہرین کے لیے مزید مشکلات پیدا کیں۔ مگر حکومت پوری طاقت کے استعمال کے باوجود بھی کمزور دکھائی دی اور انہوں نے صورتحال کو کنٹرول کرنے سے متعلق اپنے بیانات سے بیک اپ کرنا شروع کیا جوکہ انکی کمزوری کا مظہر تھا کہ اتنے بڑے جلوس کو کیسے کنٹرول کیا جائے۔

4. بین الاقوامی ردعمل

اس احتجاج پر امریکہ اور اقوام متحدہ نے پاکستان میں انسانی حقوق اور جمہوری اصولوں کی پاسداری پر زور دیا، مگر یہ بیانات محض رسمی نوعیت کے تھے اور ان کا اثر حکومتی سطح پر انکے بیانات میں دکھائی دیا کہ صورتحال کبھی بھی آوٹ آف کنٹرول ہوسکتی ہے۔

آگے کیا ہوگا؟
تحریک انصاف کے لیے یہ وقت خوداحتسابی کا ہے۔ قیادت کو اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنی ہوگی اور کارکنان کا اعتماد بحال کرنا ہوگا۔ آنے والے دنوں میں، سیاسی کشیدگی مزید بڑھ سکتی ہے، خاص طور پر اگر عمران خان کے خلاف قانونی کارروائی میں شدت آتی ہے۔یہ بات اب بلکل واضع ہے کہ پاکستان کی سیاست میں فوج اور اسٹیبلشمنٹ کا کردار ایک انتہائی اہم اور غالب حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی جیسی دو بڑی سیاسی جماعتیں اکثر اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے ہی مضبوط ہوئی ہیں اور اب موجودہ صورتحال میں انہیں اسٹیبلشمنٹ کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ اس کے برعکس، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، جس کی قیادت عمران خان کرتے ہیں، عوام میں بھرپور مقبولیت رکھتی ہے اور وہ ایک بڑی عوامی طاقت رکھتی ہے ۔ تاہم وہ بھی ماضی میں اشٹیبلشمینٹ کے ہی کندھوں پر سوار ہوکر  اقتدار کی مسند پر برجمان ہوئے تھے تاہم، طاقتور اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی قیادت کی اپنی کمزوریوں کے باعث پاکستان میں ابتک جمہوری عمل مکمل طور پر عوام کی امنگوں کا عکاس نہیں بن سکا۔ فوج کے سیاسی عمل میں براہِ راست یا بالواسطہ مداخلت کے سبب جمہوریت کے استحکام میں رکاوٹیں پیش آتی رہی ہیں، اور اسوقت عمران خان کی پارٹی کو طاقتور حلقوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ یہ صورتحال ملک میں ایک غیر متوازن سیاسی ماحول کو جنم دے رہی  ہے،

بہرکیف یہ احتجاج تحریک انصاف کے لیے ایک سبق بھی ہے کہ جذباتی نعروں اور غیرمنظم قیادت کے بغیر کسی بھی سیاسی تحریک کو کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ مستقبل میں اگر پی ٹی آئی نے اپنی حکمت عملی نہ بدلی، تو اسے مزید سیاسی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

آپ یہ پی ٹئ آئی کے کاکنان کی وڈیو دیکھیں اور خود نتیجہ اخذ کریں


اپنا تبصرہ لکھیں