پائپ لائنوں اور کیبلز پر حملے بین الاقوامی تنازعہ میں اضافے کی علامات
بحر بالٹک میں پانی کے نیچے پائپ لائنوں اور کیبلز کو نقصان پہنچانے کے سلسلے میں متعدد غیر وضاحت شدہ واقعات نے سبوتاژ کے شبہات کو جنم دیا ہے۔ علاقے میں جغرافیائی سیاسی کشیدگیاں بڑھ رہی ہیں، خاص طور پر روس کے یوکرین پر حملے کے بعد، اور یہ واقعات زیرِ سمندر جنگ کے ایک نئے مرحلے کا اشارہ دے سکتے ہیں۔
بحر بالٹک میں سبوتاژ کے واقعات میں اضافہ
اتوار اور پیر کو بحر بالٹک میں دو فائبر آپٹک کیبلز کاٹ دی گئیں، جس پر چین کے ایک کارگو جہاز کے بارے میں خدشات ظاہر کیے گئے جو حملوں سے کچھ وقت پہلے علاقے سے گزرا تھا۔ ڈینش نیوی اس جہاز کی نگرانی کر رہی ہے، جو روس کے شہر اوست لوگا سے روانہ ہو کر ڈنمارک اور سویڈن کے درمیان کیٹی گیٹ اسٹریٹ سے گزرا تھا۔ سویڈش پولیس نے اس جہاز کو “دلچسپی کا حامل” قرار دیا ہے، اور سویڈن کے وزیرِ اعظم اولف کرسٹرسن نے اس معاملے کی تفصیلی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
کیبلز کا کاٹنا گزشتہ دو سالوں میں اسی نوعیت کے ایک سلسلے کا تازہ ترین واقعہ ہے، جس نے بین الاقوامی تنازعات میں پانی کے نیچے سبوتاژ کے کردار پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔
ماضی کے حملے: نارڈ اسٹریم پائپ لائن میں دھماکے اور بالٹک کنیکٹر کی تباہی
بحر بالٹک جغرافیائی سیاسی کشیدگیوں کا مرکز بن گیا ہے۔ ستمبر 2022 میں روس اور جرمنی کے درمیان گیس کی سپلائی کرنے والی نارڈ اسٹریم پائپ لائنوں میں دھماکے ہوئے۔ ان دھماکوں نے نارڈ اسٹریم 1 اور 2 پائپ لائنوں کو شدید نقصان پہنچایا اور چار میں سے تین پائپ بند ہوگئے۔ مغربی عہدیداروں نے ان سبوتاژ کا الزام روس پر عائد کیا، جب کہ ماسکو نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر الزامات عائد کیے، اور بعض رپورٹس نے بتایا کہ پرو یوکرینی عناصر اس میں ملوث ہو سکتے ہیں۔
صرف ایک سال بعد، اکتوبر 2023 میں، بالٹک کنیکٹر گیس پائپ لائن، جو فن لینڈ اور استونیا کو جوڑتی ہے، بھی ایک زیرِ سمندر حادثے میں نقصان سے دوچار ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی قریبی ڈیٹا کیبلز کی بھی خرابی واقع ہوئی۔ فن لینڈ اور استونیا کے تفتیش کاروں نے ابتدائی طور پر چین کے ایک کارگو جہاز کو مشتبہ قرار دیا تھا، جس پر الزام تھا کہ اس نے سمندر کی تہہ پر اپنی اینکر گھسیٹی تھی، حالانکہ انہوں نے یہ تصدیق نہیں کی کہ آیا نقصان جان بوجھ کر کیا گیا تھا۔
بحر بالٹک پانی کے نیچے سبوتاژ کے لیے کیوں ایک ہاٹ سپاٹ ہے؟
بحر بالٹک ایک جغرافیائی طور پر اہم آبی راستہ ہے، جو ایک پتلے اور تنگ بیسن پر واقع ہے اور آٹھ نیٹو ممالک کے درمیان واقع ہے، جس کا سرحدی تعلق روس سے بھی ہے۔ یہ اہم نیول اور فوجی اثاثوں کا مرکز ہے، بشمول روس کی بالٹک بیڑے کا قلعہ کالننگراد اور اسٹریٹجک لحاظ سے اہم بندرگاہی شہر سینٹ پیٹرزبرگ۔
ناروے کی دفاعی یونیورسٹی کالج کے پروفیسر ٹورموڈ ہیئر نے نوٹ کیا کہ 2004 میں بالٹک ریاستوں—ایسٹونیا، لٹویا اور لیتھوانیا—کے نیٹو میں شمولیت کے بعد یہ خطہ روس اور مغرب کے درمیان کشیدگی کا مرکز بن گیا ہے۔ نیٹو کے روس کی سرحدوں کے قریب ہونے کے باعث اور روس کی بڑھتی ہوئی جارحیت نے بحر بالٹک کو تنازعہ کے لیے ایک ممکنہ نقطہ بنادیا ہے۔ اس خطے کی جغرافیائی اہمیت اس وقت اور بھی بڑھ گئی ہے جب فن لینڈ اور سویڈن نے نیٹو میں شمولیت اختیار کی، جس سے سیکیورٹی کی صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔
کیا یہ واقعات سبوتاژ ہیں؟
اگرچہ یہ ابھی تک واضح نہیں ہو سکا کہ حالیہ پائپ لائن اور کیبل کے واقعات سبوتاژ تھے یا نہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بہت ممکن ہے۔ پانی کے نیچے سبوتاژ ایک وسیع ہائبرڈ جنگ کی حکمت عملی کا حصہ ہو سکتا ہے—ایسی حکمت عملی جو روایتی اور غیر روایتی طریقوں کو ملا کر خطوں کو عدم استحکام میں مبتلا کر دیتی ہے، بغیر اس کے کہ مکمل جنگ میں مبتلا ہو جائے۔
ہائبرڈ جنگ کی حکمت عملی بحر بالٹک میں طویل عرصے سے استعمال ہو رہی ہے، جیسے بالٹک ریاستوں میں جی پی ایس جام کرنا اور سویڈن کے فضائی حدود میں روسی جاسوس طیاروں کا داخل ہونا۔ ہیئر نے وضاحت کی کہ ہائبرڈ جنگ کی خاصیت اس کی مبہم نوعیت میں ہے—یہ کارروائیاں کسی خاص کھلاڑی سے براہ راست جوڑی نہیں جا سکتیں، جو انہیں بین الاقوامی تنازعہ کے “سایہ زون” میں رہنے کی اجازت دیتی ہے۔ اس سے قوموں کو خلل ڈالنے والی کارروائیاں کرنے میں آسانی ہوتی ہے، بغیر کہ براہ راست فوجی جوابی کارروائی کو بھڑکایا جائے۔
ہائبرڈ جنگ کا جدید جغرافیائی سیاست میں کردار
ہائبرڈ جنگ ایک بڑھتا ہوا تشویش کا باعث بن رہی ہے، کیونکہ ممالک بحر بالٹک جیسے غیر مستحکم علاقوں میں اثر و رسوخ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پائپ لائنوں اور کیبلز کو سبوتاژ کرنا ایک سستا طریقہ سمجھا جا سکتا ہے جس سے افراتفری پھیلائی جا سکتی ہے اور ایک پیغام بھیجا جا سکتا ہے، بغیر کہ مکمل فوجی تصادم کی طرف بڑھا جائے۔ اس خطے کی حیثیت ایک جغرافیائی فالس لائن کے طور پر اسے ایسی حکمت عملیوں کے لیے ایک مثالی میدان جنگ بنا دیتی ہے، جہاں کارروائیاں اتنی مبہم رہ سکتی ہیں کہ ان پر واضح طور پر کسی ایک فریق کا الزام نہیں لگایا جا سکتا اور پوری جنگ کا آغاز نہیں ہوتا۔
نتیجہ: پانی کے نیچے جنگ کا نیا دور؟
جیسے جیسے بحر بالٹک میں پانی کے نیچے سبوتاژ کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں، سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ جنگ کی ایک نئی شکل کی نشاندہی کرتے ہیں۔ چاہے یہ ریاستی اداکاروں یا غیر ریاستی اداروں کی طرف سے کی گئی کارروائیاں ہوں، یہ اعمال جغرافیائی طاقت کے مقابلے کے طریقوں میں تبدیلی کی علامت بن سکتے ہیں۔ ہائبرڈ جنگ کے عروج کے ساتھ، بحر بالٹک بین الاقوامی کشیدگیوں اور تصادموں کے لیے ایک بڑھتا ہوا اہم میدان بن رہا ہے۔