امریکی مسلم ووٹروں کی غزہ کے تنازعہ کے سبب صدارتی انتخاب میں متبادل کی تلاش، مسلمانوں کی اکثریت نے دونوں بڑی جماعتوں سے منہ موڑ لیا


رپورٹ: راجہ زاہد اختر خانزادہ
ٹیکساس: ٹیکساس — جیسے جیسے امریکی صدارتی انتخاب قریب آرہا ہے اس سے انتخابی موسم میں بھی شدت آتی جا رہی ہے، مسلم ووٹرز دونوں بڑی جماعتوں کے خلاف اپنے عدم اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں، جس کی بڑی وجہ غزہ کے جاری تنازعے کی وجہ ہے۔ اس ضمن میں مختلف جائزوں سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ غزہ کی جنگ کے باعث مسلم ووٹروں نے صدر ٹرمپ اور نائب صدر کملا ہیرس دونوں کے اسرائیل کے بارے میں موقف پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ اس تبدیلی نے تیسری پارٹی کے امیدواروں کو ایک ممکنہ متبادل کے طور پر اپنی توجہ مبذول کرائی ہے اور تھرڈ پارٹی امیدواروں کو ووٹ دینے کیلئے ترجیح دینے لگے ہیں۔کونسل آف امریکن اسلامک ریلیشنز (CAIR)دو ماہ قبل کرائے گئے سروے کے مطابق، نائب صدر کاملا ہیرس اور گرین پارٹی کے امیدوار جِل اسٹین کو مسلم ووٹرز کی انتیس فیصد حمایت حاصل ہے، جبکہ ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی مسلم ووٹرز کی تعداد 11 فیصد ہے۔ اس سروے سے غزہ جنگ کے اثرات کے حوالے سے مسلم ووٹرز کے رجحانات کو بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے کیونک پچھلی بار کے صدارتی انتخابات میں بائیڈن کو مسلم ووٹرز کی بھاری حمایت حاصل ہوئی تھی اور انکو مسلمانوں کی 65 فیصد ووٹ ملے تھے، مگر اب اس حمایت میں بہت واضح کمی دیکھی جا رہی ہے۔ کئی مسلم ووٹرز اب تیسری پارٹی کے امیدواروں کو ووٹ دینے یا کسی بھی امیدوار کو ووٹ نہ دینے کا سوچ رہے ہیں۔
دوسری جانب حال ہی میں ریپبلکن امیدوار ٹرمپ نے مسلم کمیونٹی کے ساتھ روابط بڑھائے اور حالیہ طور پر مشی گن میں عرب مسلم رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔ جسکے نتیجہ میں وہاں کے مسلمانوں نے دو دن قبل ٹرمپ کی الیکشن ریلی میں انکی حمایت کا بڑا اعلان کر دیا، اور اس بات پر زور دیا کہ ٹرمپ جنگ بندی کرانے کا وعدہ کیا ہے اسلیئے اب مشی گن سے مسلمانوں کی یہ حمایت ٹرمپ کی مہم کے لئے اہم ثابت ہوسکتی ہے، تاہم اس کے باوجود بھی کئی مسلمان تیسری پارٹی کے امیدواروں کو ایک آپشن کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
اس وقت امریکی صدارتی انتخابات میں 21 تھرڈ پارٹی امیدوار بھی موجود ہیں۔ سب سے زیادہ تعداد لوئیزیانا، مشی گن، مینیسوٹا، میسیسیپی اور نیو جرسی سے ہے، جہاں سات سات امیدوار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ امریکہ میں عمومی طور پر دو جماعتی نظام ہے جس میں زیادہ تر ووٹرز ریپبلکن یا ڈیموکریٹ امیدواروں کو ووٹ دیتے ہیں۔ تاہم، تھرڈ پارٹی یا آزاد امیدواروں کو بھی قانونی طور پر بیلٹ پر آنے کا حق ہے، بشرطیکہ وہ ریاست کے مخصوص قواعد پر پورا اترتے ہوں۔ امریکہ کی ہر ریاست میں تھرڈ پارٹی امیدواروں کو بیلٹ پر شامل ہونے کے لئے مخصوص تعداد میں ووٹروں کے دستخط جمع کرانے پڑتے ہیں، جو کہ ریاستی قوانین کے مطابق مختلف ہیں۔ اس سال کے اہم تھرڈ پارٹی امیدواروں میں انڈیپنڈنٹ رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر اور گرین پارٹی کی جِل اسٹین شامل ہیں۔ کینیڈی کی حمایت میں 4.6 فیصد اضافہ ہوا تھا، لیکن انہوں نے ٹرمپ کی حمایت کرتے ہوئے انتخابی دوڑ سے دستبرداری کا اعلان کر دیا ہے
جِل اسٹین، جو کہ 2016 میں بھی گرین پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار رہ چکی ہیں، وہ اس بار بھی ماحولیاتی تبدیلی اور غزہ جنگ جیسے مسائل کو نمایاں کر کے بائیں بازو کے ووٹرز کی توجہ حاصل کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ تھرڈ پارٹی امیدوار ایسے بھی ہیں جو محدود ریاستوں میں ہی بیلٹ پر موجود ہیں، جیسے کہ ڈلاویئر میں ورمن سپریم اور یوتا میں لوسیفر ایوریلوو۔
امریکہ میں تھرڈ پارٹی جماعتیں عام طور پر انتخابات میں حصہ لیتی ہیں تاکہ وہ اپنے متبادل نقطہ نظر کو پیش کرسکیں اور مجموعی انتخابی منظر نامے پر اثر انداز ہو سکیں، اور ووٹروں کو روایتی دو فریقی فریم ورک سے ہٹ کر متنوع انتخاب کے ساتھ پیش کریں۔


اپنا تبصرہ لکھیں