راجہ زاہد اختر خانزادہ
ٹیکساس: امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں امریکہ کے بڑے اخبار واشنگٹن پوسٹ اور اینجلس ٹائمز کی جانب سے حالیہ انتخابات میں کسی بھی امیدوار کی حمایت نہ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے یہ اعلان امریکی میڈیا میں ادارے کے طویل عرصے سے چلے آنے والے کردار میں ایک اہم تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔ اسطرح کا اقدام، جو 1988 کے بعد اب پہلی بار سامنے آیا ہے جوکہ ایک ایسی روایت سے انحراف ہے جسکو امریکہ میں کئی میڈیائی بڑے اداروں نے ابتک برقرار رکھا ہوا ہے۔ اس فیصلے نے صحافتی ذمہ داریوں اور عوامی اعتماد کے حوالے سے ایک وسیع بحث کو جنم دیا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کے سی ای او ول لیوس نے اس ضمن میں اسٹاف کو اطلاع دی کہ ادارہ اب صدارتی امیدواروں کی حمایت نہیں کرے گا جسپر فوری اطلاق ہو گا جبکہ ان کے بیان میں کہا گیا کہ یہ فیصلہ قارئین کو خود سے فیصلہ کرنے کا موقع دینے کی خواہش پر مبنی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کے اس فیصلہ کی طرح اینجلس ٹائمز نے بھی اسی طرح کے اقدام پر عمل درآمد کرتے ہوئے انہو ں نے بھی اس صدارتی انتخاب میں کسی بھی امیدوار کی حمایت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ دونوں اخبارات کے ان فیصلوں نے ادارے کے اندر اور باہر سخت ردعمل کو جنم دیا ہے اور اس بات پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ یہ تبدیلی کیوں اور کس مقصد کے تحت کی گئی ہے؟ واشنگٹن پوسٹ کے سی ای او ول لیوس نے اس فیصلے کو ادارے کی بنیادی اقدار کی طرف واپسی قرار دیا، اور اس ضمن میں انہوں نے 1960 کی دہائی کے اس اداریہ کا حوالہ بھی دیا جس میں واشنگٹن پوسٹ نے اسوقت صدارتی امیدواروں کی حمایت سے گریز کیا تھا۔ جسکا مقصد قارئین کی آزادانہ رائے سازی کے حق کا احترام کرنا تھا ، یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب یہ انتخابات امریکی تاریخ کے اہم ترین انتخابات میں شمار کئیے جارہے ہیں
پوسٹ گِلڈ، جو ادارتی اسٹاف کی نمائندگی کرنے والی صحافیوں کی ایک یونین ہے، نے انکشاف کیا ہے کہ کمالہ ہیرس کے حق میں ایک اداریہ پہلے ہی تیار تھا، لیکن شائع نہ کرنے کا فیصلہ اخبار کے مالک جیف بیزوس کی جانب سے سامنے آیا، اگرچہ اسکی وجوہات ابتک واضح نہیں ہیں دوسری جانب واشنگٹن پوسٹ کے سابق ایڈیٹر مارٹی بیرون اور دیگر معروف میڈیا شخصیات نے فوراً اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے اسے “بزدلی” اور عوام کو معلومات فراہم کرنے کے حوالے سے اخبار کی ذمہ داری سے انحراف قرار دیا، اور کہا ہے کہ انکے دوبارہ انتخابات میں شمولیت اور ٹرمپ کی فتح کی صورت میں اس خاموشی کو ان کی حمایت سمجھا جا سکتا ہے۔ تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اخبار کے اس عمل سے اور کسی بھی امیدوار کی حمایت نہ کرنے سے اس بارے میں دونوں امیدواروں میں برابری کا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ واضع رہے کہ واشنگٹن پوسٹ اور لاس اینجلس ٹائمز کا یہ فیصلہ نیویارک ٹائمز اور گارڈین جیسے دیگر اداروں کے اقدامات سے مختلف ہے، جنہوں نے کھل کر کمالہ ہیرس کی حمایت کی ہے ان اداروں نے ان کے انتخاب کو جمہوری اقدار کے مطابق قرار دیا ہے، تاہم، نیویارک پوسٹ نے ٹرمپ کی حمایت کی، جو کہ ان کے نقطہ نظر کے عین مطابق ہے۔ دوسری جانب دونوں اداروں کے اسٹاف ممبران میں بھی مایوسی پائی جاتی ہے، جسکی وجہ سے کئی اداریہ نگاروں نے احتجاجاً اس اخبار میں اپنی نوکری سے استعفیٰ بھی دیا ہے اس ضمن میں تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ واشنگٹن پوسٹ کا یہ فیصلہ میڈیا انڈسٹری میں غیر جانبداری اور جمہوری اصولوں کی انحرافی کی طرح ہے خاص طور پر ایسے وقت میں جب میڈیا کے کردار پر بہت زیادہ تنقید کی جا رہی ہے گارڈین کی کالم نگار مارگریٹ سلیوان نے اسے “عوامی فریضے سے انحراف” قرار دیا اور کہا کہ یہ خاموشی، ٹرمپ کے رویے کی حمایت کا تاثر دے سکتی ہے۔ اس نظرئیے کے حامیوں کے نزدیک، غیر جانبداری کا مطلب بعض اوقات جمہوریت کے تقاضوں سے پیچھے ہٹنے کے مترادف ہو سکتا ہے۔امریکہ میں میڈیائی دنیا میں واشنگٹن پوسٹ کا صدارتی امیدوار کی حمایت سے گریز کا فیصلہ سیاسی صحافت میں ایک غیر متوقع تبدیلی ہے جس کے اثرات میڈیا کی ساکھ پر پڑسکتے ہیں اور اخبارات سے عوام کا اعتماد ان پر ختم بھی ہوسکتا ہے جوکہ غیر جانبداری کی نہیں بلکہ ایک خاموشی کی نشاندہی کررہا ہے اور اسوقت جبکہ امریکہ میں جمہوریت اور اصولوں کی اہمیت سب سے زیادہ اہم ہے ۔ جیسےجیسے 2024 کے انتخابات قریب آ رہے ہیں یہ فیصلہ یہاں ایک تقسیم شدہ سیاسی ماحول میں میڈیا کے ارتقا پذیر کردار کو اجاگر کرتا ہے۔