غیر قانونی تعیناتیوں کا الزام: اینٹی کرپشن پنجاب کی پرویز الہٰی کا جسمانی ریمانڈ دینے کی استدعا

غیر قانونی تعیناتیوں کا الزام: اینٹی کرپشن پنجاب کی پرویز الہٰی کا جسمانی ریمانڈ دینے کی استدعا


پنجاب اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ نے لاہور کی ایک عدالت سے سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور صدر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) چوہدری پرویز الہٰی کا غیر قانونی تقرریوں سے متعلق دو مقدمات میں 14 روزہ جسمانی ریمانڈ دینے کی استدعا کردی۔

پرویز الہٰی، پی ٹی آئی کے ان متعدد رہنماؤں اور کارکنوں میں شامل ہیں جنہیں 9 مئی کو عمران خان کی پہلی گرفتاری کے بعد ملک میں پرتشدد واقعات کے بعد پی ٹی آئی قیادت کے خلاف ریاستی کریک ڈاؤن کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔

انہیں یکم جون سے اب تک مختلف مقدمات میں متعدد بار گرفتار کیا جا چکا ہے، ان کے ایک وکیل کے مطابق ان کو گرفتار کیے جانے کی تعداد 12 سے تجاوز کر چکی ہے۔

ان کی تازہ ترین گرفتاری گزشتہ روز عمل میں آئی جب اینٹی کرپشن پنجاب نے چوہدری پرویز الہٰی کو اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزام پر گرفتار کرلیا تھا، اس کیس میں محمد خان بھٹی کو بطور وزیر اعلیٰ پنجاب ان کے دور میں ان کے پرنسپل سیکریٹری کے طور پر تعینات کیا گیا تھا، اینٹی کرپشن پنجاب نے الزام لگایا کہ محمد خان بھٹی کا تقرر قانون کے مطابق نہیں تھا۔

آج پرویز الہٰی کو اینٹی کرپشن پنجاب نے ضلع کچہری لاہور میں پیش کیا جہاں جوڈیشل مجسٹریٹ عمران عابد نے سماعت کی۔

دوران سماعت اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ نے پرویز الہٰی کے جسمانی ریمانڈ کے لیے درخواست دی، پرویز الہٰی کی جانب سے رانا انتظار ایڈووکیٹ اور عامر سعید راں عدالت میں پیش ہوئے۔

پرویز الہٰی کے وکیل عامر سعید راں نے سرکاری وکیل کے دلائل پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ جس کیس میں ریمانڈ لینے آئے ہیں، اس کیس میں پراسیکیوٹر دلائل نہیں دے رہے۔

وکیل اینٹی کرپشن نے کہا کہ ہم نے دو کیسز میں ریمانڈ لینا ہے، ہم نے محمد خان بھٹی تعیناتی کیس اور اسمبلیوں میں بھرتی کیس دونوں میں ریمانڈ لینا ہے، وکیل پرویز الہٰی رانا انتظار نے کہا کہ بھرتی کیس میں پرویز الہٰی کی حفاظتی ضمانت لاہور ہائی کورٹ سے منظور ہو چکی ہے۔

وکیل اینٹی کرپشن عبدالصمد نے کہا کہ پرویز الہٰی نے پنجاب اسمبلی میں غیر قانونی بھرتیاں کیں، غیر قانونی بھرتیوں کا اسکینڈل بہت بڑا ہے، پرویز الہٰی سے تفتیش کے لیے جسمانی ریمانڈ دیا جائے، پرویز الہٰی نے گریڈ 17 میں کئی غیر قانونی بھرتیاں کیں، ان سے بھرتیوں کا ریکارڈ برآمد کرنا ہے۔

وکیل نے کہا کہ پرویز الہٰی سے رشوت کی مد میں لیے گیے کروڑوں روپے برآمد کرنے ہیں، پرویز الہٰی سے تفتیش کے لیے ان کا 14 دن کا جسمانی ریمانڈ درکار ہے۔

پرویز الہٰی کے وکیل نے جسمانی ریمانڈ کی درخواست کی مخالفت کی۔

انہوں نے کہا کہ پرویز الہٰی کا اسلام آباد سے جس کیس میں ریمانڈ لیا گیا وہ محمد خاں بھٹی والا کیس ہے، جس بھرتیوں کے کیس میں ریمانڈ مانگا جا رہا ہے اس میں ہائی کورٹ سے ضمانت ہو چکی ہے، لاہور ہائی کورٹ نے پرویز الہٰی کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار کرنے سے روک رکھا ہے۔

وکیل پرویز الہٰی نے کہا کہ عدالتی حکم کی خلاف ورزی کر کے پرویز الہٰی کو کئی بار گرفتار کیا گیا، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف جو ایف آئی آر درج کی گئی اس وقت پرویز الہٰی اینٹی کرپشن کی ہی حراست میں تھے، ایف آئی آر بدنیتی پر مبنی ہے مقدمے کے اندراج سے پہلے کوئی انکوائری نہیں کی گئی۔

وکیل رانا انتظار نے کہا کہ پرویز الہٰی کی دونوں مقدمات میں جسمانی ریمانڈ کی اینٹی کرپشن کی درخواست مسترد کی جائے، دونوں مقدمات بدنیتی پر مبنی ہیں مقدمات سے ڈسچارج کیا جائے ۔

انہوں نے کہا کہ پرویز الہٰی کا اسلام آباد سے جس کیس میں ریمانڈ لیا گیا وہ محمد خان بھٹی والا کیس ہے، جس بھرتیوں کے کیس میں ریمانڈ مانگا جا رہا ہے اس میں ہائی کورٹ سے ضمانت ہو چکی ہے، لاہور ہائی کورٹ نے پرویز الہٰی کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار کرنے سے روک رکھا ہے۔

وکیل رانا انتظار نے کہا کہ عدالتی حکم کی خلاف ورزی کر کے پرویز الہٰی کو کئی بار گرفتار کیا گیا، ان کے خلاف جو ایف آئی آر درج کی گئی اس وقت پرویز الہٰی اینٹی کرپشن کی ہی حراست میں تھے، ایف آئی آر بدنیتی پر مبنی ہے، مقدمے کے اندراج سے پہلے کوئی انکوائری نہیں کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ پرویز الہٰی کی دونوں مقدمات میں جسمانی ریمانڈ کی اینٹی کرپشن کی درخواست مسترد کی جائے، دونوں مقدمات بدنیتی پر مبنی ہیں، مقدمات سے ڈسچارج کیا جائے، پرویز الہٰی آج پریس کانفرنس کر دیں تو ان کے سارے مسئلے حل ہو جائیں گے۔

وکیل نے مؤقف اپنایا کہ پرویز الہٰی جھوٹے کیسز کا سامنا کر رہے ہیں، انہیں مقدمات سے ڈسچارج کر کے رہا کیا جائے، اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے مقدمات بدنیتی پر مبنی ہیں۔

پرویز الہٰی کی گرفتاری اور مقدمات

پرویز الہٰی پی ٹی آئی کے ان متعدد رہنماؤں اور کارکنوں میں شامل ہیں جنہیں 9 مئی کو ہونے والے ہنگاموں کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت کے خلاف ریاستی کریک ڈاؤن کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔

انہیں پہلی بار یکم جون کو اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ (اے سی ای) نے ان کی لاہور رہائش گاہ کے باہر سے ترقیاتی منصوبوں میں مبینہ طور پر رشوت لینے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

اگلے ہی روز لاہور کی ایک عدالت نے انہیں مقدمے سے ڈسچارج کر دیا تھا لیکن اے سی ای نے انہیں گوجرانوالہ کے علاقے میں درج اسی طرح کے ایک مقدمے میں دوبارہ گرفتار کر لیا تھا۔

اس کے بعد گوجرانوالہ کی ایک عدالت نے انہیں 3 جون کو فنڈز کے غبن سے متعلق بدعنوانی کے دو مقدمات میں بری کر دیا تھا۔

مقدمے سے ڈسچارج ہونے کے باوجود اینٹی کرپشن اسٹیبلمشنٹ نے پھر پرویز الہٰی کو پنجاب اسمبلی میں ’غیر قانونی بھرتیوں‘ کے الزام میں دوبارہ گرفتار کر لیا تھا۔

9 جون کو ایک خصوصی انسداد بدعنوانی عدالت نے اے سی ای کو غیر قانونی تعیناتیوں کے کیس کا ریکارڈ پیش کرنے کا ’آخری موقع‘ دیا تھا۔

اسی روز قومی احتساب بیورو حرکت میں آیا اور گجرات اور منڈی بہاالدین میں ترقیاتی منصوبوں میں مبینہ طور پر غبن میں ملوث ہونے پر صدر پی ٹی آئی کے خلاف ایک اور انکوائری شروع کردی گئی۔

12 جون کو سیشن عدالت نے غبن کیس میں جوڈیشل مجسٹریٹ کی جانب سے پرویز الہٰی کی بریت کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا جس کے اگلے روز لاہور ہائی کورٹ نے سیشن کورٹ کے مذکورہ حکم کو معطل کردیا اور جوڈیشل مجسٹریٹ نے انہیں دوبارہ جوڈیشل لاک اپ بھیج دیا۔

20 جون کو پرویز الہٰی نے بالآخر لاہور کی انسداد بدعنوانی عدالت سے ریلیف حاصل کر لیا لیکن جیل سے رہا نہ ہو سکےکیونکہ ان کی رہائی کے احکامات جیل انتظامیہ کو نہیں پہنچائے گئے تھے۔

اسی روز ایف آئی اے نے ان پر، ان کے بیٹے مونس الہٰی اور تین دیگر افراد کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزام میں مقدمہ درج کیا۔

جس کے اگلے روز ایف آئی اے نے انہیں جیل سے حراست میں لے لیا اور منی لانڈرنگ کیس میں انہیں روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔

24 جون کو لاہور کی اسپیشل کورٹ سینٹرل نے سابق وزیراعلیٰ کی منی لانڈرنگ کیس ضمانت منظورکی تھی۔

تاہم 26 جون کو لاہور کی ایک ضلعی عدالت نے منی لانڈرنگ کیس کے سلسلے میں انہیں دوبارہ 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا، جس کے فوراً بعد ایف آئی اے نے انہیں کیمپ جیل کے باہر سے گرفتار کیا۔

12 جولائی کو لاہور کی سیشن عدالت نے غیر وضاحتی بینکنگ ٹرانزیکشنز کے کیس میں پرویز الہٰی کے جسمانی ریمانڈ سے انکار کے خلاف ایف آئی اے کی درخواست خارج کردی تھی۔

اس کے دو روز بعد لاہور ہائی کورٹ نے پولیس اور اے سی ای کو پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ کو کسی بھی نامعلوم کیس میں گرفتار کرنے سے روک دیا تھا۔

بعد ازاں 15 جولائی کو بینکنگ جرائم کی ایک عدالت نے منی لانڈرنگ کیس میں چوہدری پرویز الہٰی کی کیمپ جیل سے رہائی کے احکامات جاری کیے تھے۔

تاہم انہیں رہا نہیں کیا گیا تھا اور پولیس نے بتایا کہ پی ٹی آئی رہنما کے خلاف غالب مارکیٹ تھانے میں دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

یکم ستمبر کو چوہدری پرویز الہٰی کو لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے رہا کیے جانے کے بعد گھر جاتے ہوئے پولیس نے دوبارہ گرفتار کرلیا تھا، بعدازاں 2 ستمبر کو پرویز الہٰی کو اٹک جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔


اپنا تبصرہ لکھیں