نواز شریف 21 اکتوبر کو پاکستان واپس آئیں گے، شہباز شریف

نواز شریف 21 اکتوبر کو پاکستان واپس آئیں گے، شہباز شریف


پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پارٹی قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف 21 اکتوبر کو پاکستان واپس آئیں گے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے مسلم لیگ (ن) کے صدرشہباز شریف کا اہم بیان جاری کیا، جس میں انہوں نے کہا کہ ’معمار پاکستان اور رہبر عوام نواز شریف 21 اکتوبر کو وطن واپس تشریف لائیں گے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’محسن عوام نواز شریف کا وطن آمد پر فقید المثال استقبال کیا جائے گا‘۔

اس سے قبل 25 اگست کو لندن میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا تھا کہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ پارٹی قائد نواز شریف اکتوبر میں پاکستان آئیں گے اور انتخابی مہم کی قیادت کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پارٹی قیادت سے مشاورت کے بعد طے پایا ہے کہ ہمارے قائد نواز شریف اکتوبر میں پاکستان آئیں گے۔

اگست کے اوائل میں بھی خبریں آئی تھیں کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد جلد واپس آ رہے ہیں لیکن اس کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا تھا۔

مسلم لیگ (ن) کے متعدد رہنماؤں کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے خاتمے کے بعد شہباز شریف کے وزیراعظم بننے پر دعویٰ کیا تھا کہ نواز شریف جلد پاکستان آئیں گے۔

شہباز شریف نے 10 اگست کو ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ نواز شریف ستمبر میں واپس آئیں گے۔

یاد رہے کہ نواز شریف کو 2018 میں العزیزیہ ملز اور ایون فیلڈ کرپشن کیسز میں سزا سنائی گئی تھی، العزیزیہ ملز ریفرنس میں انہیں لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں 7 برس کے لیے قید کردیا گیا تھا تاہم کچھ ہی عرصے بعد انہیں طبی بنیادوں پر لندن جانے کی اجازت دے دی گئی تھی۔

نواز شریف جیل میں صحت کی خرابی کے بعد نومبر 2019 میں علاج کی غرض سے لندن روانہ ہوگئے تھے لیکن وہ تاحال پاکستان واپس نہیں آئے جبکہ ان کے خلاف پاکستان میں متعدد مقدمات زیر التوا ہیں۔

نواز شریف کی لندن روانگی سے قبل شہباز شریف نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئےاس بات کی یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ 4 ہفتوں یا ان کے ڈاکٹر کی جانب سےان کی صحت یابی کی تصدیق کے بعد وہ پاکستان واپس آجائیں گے۔

بعدازاں گزشتہ سال اگست میں نواز شریف نے برطانوی محکمہ داخلہ کی جانب سے ’طبی بنیادوں پر‘ ان کے ملک میں قیام میں توسیع کی اجازت دینے سے انکار پر امیگریشن ٹریبیونل میں درخواست دی تھی۔

جب تک ٹریبونل نواز شریف کی درخواست پر اپنا فیصلہ نہیں دے دیتا نواز شریف برطانیہ میں قانونی طور پر مقیم رہ سکتے ہیں، ان کا پاسپورٹ فروری 2021 میں ایکسپائر ہوچکا تھا تاہم پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت بننے کے بعد ان کو پاسپورٹ جاری کردیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ مرکز میں مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت کی مدت کے خاتمے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت لندن میں مقیم ہے جس پر پارٹی کے مختلف رہنماؤں نے بھی کہا تھا کہ اعلیٰ قیادت کو واپس آنا چاہیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے کئی رہنما سمجھتے ہیں کہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی لندن میں موجودگی اچھا تاثر نہیں چھوڑ رہی، نگراں سیٹ اپ کے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد شہباز شریف لندن پہنچ گئے اور بڑے شریف اور نواز شریف 2019 سے ہی لندن میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے ایک اہم رکن نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ پارٹی قیادت کی ملک سے روانگی کی جانب توجہ مبذول کرانا غلط ہے، سابق وزیر اعظم اور پارٹی رہنما کی حیثیت سے شہباز شریف کو فوری واپس آنا چاہیے، انہیں یہاں آکر لوگوں کو بتانا ہوگا کہ وہ آج ان مشکلات کا کیوں سامنا کر رہے ہیں، اس وقت ملک چھوڑ کر جانا کوئی ذمہ دارانہ عمل نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم (پاکستان میں موجود پارٹی قیادت) یہاں ان چیزوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو ہم نے محدود وقت میں حاصل کیں، انہیں بھی کرنی چاہیے، کوئی بھی کبوتر کی طرح آنکھیں بند نہیں کر سکتا۔

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو ملک میں عوام کے سوالات کا سامنا کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا تھا کہ ہم 16 ماہ حکومت میں تھے، ہمیں عوام کو بتانا چاہیے کہ ہماری کارکردگی کیا تھی، ہم نے آج عوام کے مسائل حل کیوں نہیں کیے؟ ہم اپنے آپ کو حقیقت سے الگ نہیں کر سکتے، اگر ہم آج لوگوں کے سوالوں کا جواب نہیں دیں گے تو وہ ہمیں بیلٹ بکس میں جواب دیں گے، یہ کرنا ضروری ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے چند دیگر رہنماؤں نے کہا تھا کہ آنے والے مہینوں میں پارٹی کے انتخابی بیانیے کے حوالے سے پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے تاحال کوئی واضح سمت نہیں ہے۔

تاہم خواجہ آصف سمیت سینئر رہنماؤں کو یقین ہے کہ نواز شریف کی وطن واپسی سے ان کی پارٹی ان طوفانوں سے باہر نکل آئے گی۔


اپنا تبصرہ لکھیں