وزیراعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پوری اتحادی حکومت نے موجودہ بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا، کاش چیف جسٹس اس بات کا خیال کریں اور فل کورٹ تشکیل دیں تو وہ فیصلہ قوم کو تسلیم کرنے میں ذرا بھی دقت نہیں ہوگی۔
وزیراعظم نے کہا کہ موجودہ بینچ سے فیصلہ کروانا انصاف کے اصولوں کے منافی ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ میں چند روز قبل اسمبلی میں تقریر کی، اس کے اگلے دن چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کئی لوگ جیلیں کاٹ کر اسمبلی میں تقریریں کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک مؤقف اور سوچ کے لیے جیل کاٹنے کے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے، کرمنل کیسز میں انصاف پسند جج کے ہاتھوں کے جیل کاٹنا بہت تحقیر کی بات ہے، عمران نیازی کے پاس صرف ایک بات تھی کہ اپوزیشن کے رہنماؤں کو جیلوں میں بجھوایا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسپیکر قومی اسمبلی کے توسط سے چیف جسٹس سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ میرے بارے میں یا دوسروں کے بارے میں تو آپ نے فرما دیا کہ آج اسمبلیوں میں تقریریں کرتے ہیں، انہوں نے جیلیں کاٹیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کیا ہمارے خلاف جو بے بنیاد کیسز تھے، کیا ہم ضمانت کی حد تک سرخرو ہو کر آئے ہیں یا پھر خدانخواستہ ہم بے عزت ہو کر آئے ہیں، میں چیف جسٹس سے یہ ضرور پوچھنا چاہتا ہوں کہ ایک ایسا جج جس کے خلاف بہت حد تک سخت الزامات لگے ہیں، آپ کو ساتھ بٹھا کر قوم کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے خلاف تو عمران نیازی اور اس کے حواریوں نے بے بنیاد الزامات لگائے، پھر میرٹ پر ضمانتیں لے کر یہ لوگ اس ہاؤس میں آئے ہیں، بطور عوام کے نمائندے ہمارا حق ہے کہ ہم ان کی ترجمانی کریں، چیف جسٹس نے ایسے شخص کو ساتھ بٹھایا جس کے خلاف کرپشن کے سخت ترین الزامات لگے ہیں، یہ عدل کا ملک میں سب سے بڑا ادارہ ہے ، آپ دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ مجھے اگر کوئی بات کرنی ہے تو سب سے پہلے میں اپنے گریبان میں جھانکوں گا، یہ ہی قانون سب پر لاگو ہوتاہے، چیف جسٹس اس پنڈورا بکس کا ذکر کردیتے جو عمران خان حکومت نے ایف آئی اے میں درج مقدمے کو برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کو بجھوایا، اس میں اللہ نے سرخروں، انہوں نے میرے خلاف ڈیلی میل میں جھوٹی خبر چھپوائی، چیف جسٹس کا ذکر کردیتے، ان کو یہ چیزیں یاد نہیں رہیں، ان کو یہ یاد رہا کہ میں جیل گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ ڈبل اسٹینڈرز، یہ دہرا معیار نہیں چلے گا، آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان کے وکیل نے کہا کہ ان کی اہلیہ پبلک آفس ہولڈر نہیں ہیں، اگر یہ بات ہے تو مریم نواز بھی تو پبلک آفس ہولڈر نہیں تھیں، اس کو جیل سے گرفتار کیا گیا، یہ دہرا معیار پاکستان کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دےگا، آج بھی وقت ہے ورنہ ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں گے اور آنے والی نسلیں تاریخ میں ہمیں کسی اور نام سے یاد کریں گی۔
قبل ازیں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سپریم کورٹ ہی وہ ادارہ ہے جہاں ایک آمر 3 ماہ مانگنے گیا، اسے 3 سال بلکہ 9 سال دے دیے گئے۔

قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت جاری ہے جہاں وزیر قانون پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی ہونے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر سپریم کورٹ میں زیر سماعت مقدمے کے حوالے سے اظہار خیال کر رہے تھےجب کہ وزیراعظم شہباز شریف بھی ایوان زیریں میں موجود تھے۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ فیصلہ سنانے کے 30 منٹ کے اندر اندر میں نے اُس وقت کے اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہٰی صاحب نے یہ مؤقف اپنایا کہ یہ کیس 3 کے مقابلے میں 4اکثریتی ججز کی رائے سے خارج ہو گیا۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ 4 کے مقابلے میں 3 کے اکثریتی فیصلہ سامنے آنے کے بعد جب کیس کی سماعت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تو ہم نے استدعا کی کہ فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کو اپنے ادارے میں اٹھنے والی اختلافی آوازوں کو بھی سننا چاہیے۔
وزیر قانون نے کہا کہ اٹارن جنرل پاکستان نے آج عدالت عظمیٰ کے سامنے اپنی معروضات پیش کیں، انہوں نے کوشش کی کہ ادارے کی تکریم، عزت اور تقدس کے لیے ایسا راستہ اختیار کیا جائے جو پوری قوم کے لیے قابل قبول ہو، تاکہ بعد میں ادارے پر انگلیاں نہ اٹھیں، ہمیں تاریخ کے جھرنکوں میں جھانکنا چاہیے، ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ اس مؤقر ادارے ترین کب کب آئین کی پامالی میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کب کب یہ ادارہ ملک کی تقدیر لکھ سکتے تھے، انہوں نے اپنے قلم کے ساتھ سیاہ تحریریں لکھیں، یہ وہ ادارہ ہے جہاں ایک آمر 3 ماہ مانگنے گیا، اسے 3 سال بلکہ 9 سال دے دیے گئے، آج تاریخ لکھنے کا دن ہے، ادارے اپنے کردار اور اپنے طرز عمل سے اپنی عزت کرواتے ہیں، ادارے اپنے فیصلوں کی وجہ سے جانتے جاتے ہیں، جب ادارے کے اندر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں، جب ججز یہ بات کر رہے ہیں، ان آوازوں کو دبا کر، نظر انداز کرکے عجلت میں فیصلہ کیا جائے گا تو تاریخ اسے کالے صفحوں پر لکھے گی۔