دواؤں کے استعمال کی ’باضابطہ ہدایات‘ کی عدم موجودگی مریضوں کیلئے باعثِ تشویش

دواؤں کے استعمال کی ’باضابطہ ہدایات‘ کی عدم موجودگی مریضوں کیلئے باعثِ تشویش


مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے مارکیٹ میں کون سی دوائیں دستیاب ہیں، یہ بتانا ڈاکٹر کی بنیادی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے، فارماسسٹ اور میڈیکل پریکٹیشنرز کو اس بارے میں پیشگی علم ہونا چاہیے کہ مقامی مارکیٹ میں کس برانڈ کے نام سے کون سے مالیکیول فروخت کیے جاتے ہیں۔

عالمی سطح پر میڈیکل بورڈز کی جانب سے فارماسیوٹیکل ڈائرکٹریز یا فارمولری تیار کی جاتی ہیں تاکہ اس عمل کو آسان اور یہ یقینی بنایا جاسکے کہ ہر مریض کو مناسب ترین دوا تجویز کی جائے۔

زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک مثلاً برطانیہ، امریکا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جاپان اور اسکینڈینیوین ممالک کے پاس میڈیکل پریکٹیشنرز اور مریضوں کی رہنمائی کے لیے اپنی قومی فارمولری موجود ہے، تاہم پاکستان میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) سے منظور شدہ ایسی کوئی سرکاری ڈائریکٹری موجود نہیں ہے۔

کسی باضابطہ اور مستند فارمولری کی عدم موجودگی میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی ہدایات میں سے ایک فارما گائیڈ ہے جو پاکستان میں دستیاب تمام ادویات کا پرنٹ شدہ حوالہ ہے جو کہ ایک موبائل ایپلی کیشن کے طور پر بھی دستیاب ہے، تاہم ملکی و عالمی سطح پر ان ہدایات کا موازنہ کیا جائے تو ان میں واضح تضادات پائے جاتے ہیں۔

مثال کے طور پر ایک دوا ہے جس کا فارمولا نام ’پائزوٹفین‘ ہے جو پاکستان میں عام طور پر ’موسیگور‘ کے نام سے فروخت ہوتا ہے، اکثر مقامی معالجین اسے بچوں کو بھوک لگنے میں مدد دینے کے لیے تجویز کرتے ہیں، فارما گائیڈ پائیزوٹفین پر مشتمل ادویات (موسیگار، لیمیٹائٹ، کیسٹونل) کو بھوک بڑھانے والی ادویات کے طور پر شمار کیا جاتا ہے۔

لیکن برٹش نیشنل فارمولری (بی این ایف) میں پائیزوٹفین کو سردرد کی دوا کے طور پر شمار کیا جاتا ہے جس کے ضمنی اثرات میں ’منہ کا خشک ہونا، متلی، چکر آنا، غنودگی، بھوک میں اضافہ، وزن میں اضافہ، چڑچڑاپن، بے خوابی اور ڈپریشن‘ شامل ہیں۔

ڈریپ کے ایک عہدیدار نے انکشاف کیا کہ ڈریپ نے دوا ساز کمپنی کو یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ وہ موسیگور کی مارکیٹنگ بھوک بڑھانے والی دوا کے طور پر نہ کرے۔

اسی طرح، بی این ایف کا کہنا ہے کہ میفینیمک ایسڈ ایک دردکش دوا ہے لیکن پاکستان میں اس فارمولے سے تیار کی جانے والی دوائیں (مثلاً پونسٹان) عام طور پر بخار کے لیے تجویز کی جاتی ہیں۔

ڈریپ کے عہدیدارنے کہا کہ یہ غلط نہیں ہے کیونکہ بخار میں مبتلا مریضوں کو ان کی تکلیف کو کم کرنے کے لیے دردکش ادویات دی جاسکتی ہیں۔

لیکن ادویات کا غلط استعمال کئی سنگین خطرات کا باعث بھی بن سکتا ہے، مثال کے طور پر پونسٹان حاملہ خواتین کو ان کی پہلے سہ ماہی کے بعد نہیں دی جاسکتی، تاہم یہ معلومات کبھی بھی دوا کے اشتہارات یا پیکیجنگ میں واضح طور پر نہیں دی جاتی۔

ڈریپ کے عہدیدار نے کہا کہ یہ درست ہے کہ حاملہ خواتین کو پونسٹان نہیں دی جاسکتی اور اس کا ذکر کتابچے میں ضرور ہونا چاہیے۔

وزارت قومی صحت کے ایک عہدیدار نے کہا کہ اس طرح کی معلومات کو چھپانا غلط برانڈنگ کے مترادف سمجھا جاسکتا ہے’۔

سربراہ ڈریپ ڈاکٹر عاصم رؤف نے ادارے کی جانب سے باضابطہ فارمولری یا گائیڈ تیار نہ ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت استعمال ہونے والی زیادہ تر فارمولری یا گائیڈ غیر منافع بخش تنظیموں نے تیار کی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’ڈریپ کی جانب سے ایک آن لائن رجسٹری پر کام کیا جارہا ہے جس کے بعد لوگ انٹرنیٹ پر ادویات سے متعلق معلومات کو چیک یا کاؤنٹر چیک کر سکیں گے‘۔

تاہم انہوں نے اس خیال سے اختلاف کیا کہ ادویات کو غلط لیبل کے ساتھ فروخت کیا جا رہا ہے یا ان کی غلط مارکیٹنگ کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ممکن ہے کہ ان کی ادویات کے استعمال کے بارے میں ان کی ہدایات برٹش نیشنل فارمولری میں دستیاب نہ ہوں لیکن وہ کسی اور فارمولری میں دستیاب ہو سکتی ہیں، کمپنیاں ہمیں وہی تفصیلات فراہم کرتی ہیں جو وہ دنیا میں کہیں اور فراہم کی جارہی ہوتی ہیں۔

ڈاکٹر رؤف نے کہا کہ ’یہ کہا جاسکتا ہے کہ آف لیبل کا استعمال بھی ایک عام عمل ہے، اگر ایک ہیلتھ پریکٹیشنر کو یقین ہے کہ کوئی دوائی اس کی تیاری کے اصل مقصد کے علاوہ دوسری بیماریوں کے لیے مفید ہو سکتی ہے تو وہ اسے تجویز کر سکتا ہے‘۔

صدر ڈرگ لائرز فورم نور مہر (جنہوں نے امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے ساتھ بھی کام کیا ہے) نے کہا کہ ڈرگ ایکٹ 1976 کا سیکشن 8 واضح طور پر کہتا ہے کہ ایک فارمولری شائع کی جانی چاہیے، بدقسمتی سے 1981 کے بعد سے ایک بھی شائع نہیں کی گئی۔

نور مہر نے بتایا کہ امریکا اور دیگر ممالک میں لیبل کے بغیر ادویات کے استعمال پر زور دینے پر بہت سی کمپنیوں پر بھاری جرمانے عائد کیے جاچکے ہیں، یہاں ڈرگ انسپکٹر قیمتوں کے معاملے پر بھی کارروائی نہیں کر سکتے کیونکہ اصل قیمتوں کے ساتھ کوئی فارمولری موجود ہی نہیں ہوتی۔

پنجاب کے عبوری وزیر صحت ڈاکٹر جاوید اکرم نے بھی اس رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ادویات کے فارمولری کو 2 سال کے اندر تیار کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ فارمولے صوبے شائع نہیں کر سکتے کیونکہ اس سے مسائل پیدا ہوں گے، اس لیے اسے وفاقی سطح پر شائع کیا جانا چاہیے، میں فارمولری کو پرنٹ شدہ شکل میں شائع کرنے کے لیے ڈریپ کو خط لکھوں گا اور اسے تمام اسٹیک ہولڈرز کو بھیجوں گا، ڈریپ اس مد میں ادائیگی کا مطلبہ کر سکتا ہے، کیونکہ یہ مریضوں کے بہترین مفاد میں ہوگا‘۔

تاہم دواسازی کی صنعت کے نمائندے اس مؤقف پر قائم ہیں کہ ان کی جانب سے کوئی غلط کام نہیں کیا جارہا۔

چیئرمین پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے) سید فاروق بخاری نے کہا کہ انڈسٹری، برطانوی اور امریکی معیار کی پیروی کرتی ہے اور ڈریپ کے لائسنس کے لیے درخواست دیتے وقت دونوں کا حوالہ دیتی ہے۔

ایگزیکٹو ڈائریکٹر فارما بیورو عائشہ تمی حق نے بتایا کہ وہ یہ سن کر حیران رہ گئیں کہ ادویات ان علامات کے علاج کے لیے فروخت کی جارہی ہیں جن کے لیے وہ رجسٹرڈ نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’ڈریپ اس طرح کے مسائل کی جانچ کا ذمہ دار ہے، بدقسمتی سے ڈریپ معیار اور دیگر مسائل کے بجائے صرف ادویات کی قیمتوں پر توجہ مرکوز کرتا ہے، فارماسیوٹیکل کمپنیاں صرف ادویات تیار کرتی ہیں، یہ ڈریپ کا کام ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ڈاکٹر صرف ان علامات کے لیے دوائیں تجویز کر رہے ہیں جو ڈریپ کے پاس رجسٹرڈ ہیں‘۔


اپنا تبصرہ لکھیں