وفاقی وزیرداخلہ رانا ثنااللہ نے کہا ہے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو ٹیبل پر لانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن اس کے لیے بنیادی شرط یہ ہے وہ ہتھیار ڈال کر خود کو آئین اور قانون کے حوالے کریں۔
اسلام آباد میں آئی جی پولیس ناصر اکبر خان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا کہ اسلام آباد پولیس پہلے سے بہتر طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے قابل ہوئی ہے اور نبھا رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد پولیس کا مطالبہ تھا کہ ان کی تنخواہ پنجاب پولیس کے برابر کیا جائے تو ان کے مطالبات پورے کیے گئے ہیں اور جو چند ایک رہ گئے ہیں وہ بھی پورے کیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کے اوپر حملے کا معاملہ میڈیا پر اٹھایا گیا، یہ خوف و ہراس پھیلانے کا باعث تھا اور یہ بھی دہشت گردی کا ایک عنصر ہے کہ لوگوں کو دہشت زدہ کیا جائے تو یہ ملزمان بھی گرفتار کر لیے گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے تفتیش جاری ہے اور جیسے ہی تفتیش مکمل ہوگی تو میڈیا کو بتایا جائے گا۔
وزیرداخلہ نے کہا کہ سی ٹی ڈی کے دو افسران کو قتل کیا گیا اور ان میں سے ایک نوید سیال کو میں ذاتی طور پر جانتا تھا جنہوں نے بڑے بڑے ٹاسک اپنی جان پر کھیل کر پورے کیے لیکن کل ان پر دہشت گردی کا حملہ اور شہید ہوگئے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک بہت بڑا نقصان تھا اور ریاست کی انسداد دہشت گردی کی جنگ ہے اس میں نوید سیال کی شہادت ناقابل تلافی نقصان ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایسی کوششیں ہوتی ہیں جس کو پبلک نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ انسداد دہشت گردی کے حوالے سے کچھ ہو نہیں رہا بلکہ بہت کچھ ہو رہا ہے کیونکہ پاکستان جس جغرافیائی حدود میں ہے، وہاں ان شہدا کی قربانیوں کی وجہ سے ممکن ہے۔
انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرنس کا عزم کیا گیا، نہ صرف دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرنس ہوگا بلکہ پہلے سے ہی اقدامات کیے جائیں گے تاکہ دہشت گردی کے واقعات سے بچا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ فیصلہ ہوا ہے کہ تمام صوبائی سی ٹی ڈیز اور خاص طور پر بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی سی ٹی ڈی کو وفاق سے مدد دی جائے اور تربیت کے مواقع دیے جائیں اور ان کی حالت ایسی کیا جائے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف اپنا مؤثر کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہو۔
وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ ایک تصور پر کام ہو رہا ہے کہ وفاقی سطح پر سی ٹی ڈی کا موبوط اسٹرکچر نیشنل سی ٹی ڈی کے طور پر قائم کیا جائے تاکہ چاروں سی ٹی ڈی کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے بھی بہتر انداز میں رابطہ کاری ہو سکے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان ایک حقیقت ہے اور وہاں کی طالبان حکومت ایک حقیقت ہے اور اسی طرح ٹی ٹی پی کو ٹیبل پر لانے کی کوشش کی جارہی ہے اور کوشش کی جائے گی لیکن ٹیبل پر لانے کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ ہتھیار رکھ دیں اور اپنے آپ کو آئین اور قانون کے تابع کردیں۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ ہمیں اس سلسلے میں طویل عرصے تک ان چیزوں سے اس طرح نبرد آزما ہونے کی ضرورت ہے کہ ہم واقعات کم سے کم ہو اور یہاں تک آجائے کہ معمولی واقعات رپورٹ ہوں اور اس حوالے سے کام ہوتا ہوا نظر آئے گا۔
’چند آڈیوز کی فرانزک کرائی ہے وہ درست ہیں‘
شوبز سے وابستہ افراد پر الزامات اور آڈیو لیکس سے متعلق ایک سوال پر وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ ’آڈیو لیکس میں کچھ لوگ ایسے ہیں جن کی آڈیو بنیادی طور پر بڑے خراب ہیں، وہ تو ٹھیک ہی ہوئی ہیں بلکہ ان کی خرابی کردار کی اور آگے اس ملک اور قوم کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں وہ اس سے بھی زیادہ ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’قوم کو ایسے لوگوں سے آگاہ ہونا چاہیے، جن کا کردار اتنا گھٹیا ہو اور وہ کہیں کہ قوم ہمیں لیڈر مانے تو ان کی شناخت کرنی چاہیے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ان کا قانونی اور اخلاقی پہلو ہوتا ہے اور اگر اس میں ایک آدمی کا کردار سامنے آتا ہے تو یہ کہنا ہے قانونی کارروائی نہ ہوئی تو کچھ نہیں ہوا بلکہ جب چیزیں سامنے آتی ہیں تو بہت کچھ ہوتا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یا تو کوئی چیلنج کرے اور کہے کہ یہ غلط ہے، ہم نے اپنے طور پر اس کی فرانزک کرائی ہے ساری چیزدرست ہیں‘۔
فوجی افسران پر الزامات سے متعلق سوال پر وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ سیاست دانوں کے لیے اس حد تک جائز ہے کہ سیاست دان اپنا دفاع کرنے، جواب دینے اور جوابی الزام لگانے کے لیے آزاد ہوتے ہیں لیکن کسی سرکاری ادارہ اور خاص طور پر قانون نافذ کرنے والا ادارہ یا فوج سے سروس چھوڑنے کے دو سال بعد تک ان کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ آکر اپنا دفاع کرے یا میڈیا پر بیان دے۔
’افغانستان کی حکومت سے براہ راست بات کرنے کا فیصلہ‘
کالعدم ٹی ٹی پی کی دھمکی پر سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ بالکل نہیں کہا کہ ہم افغانستان پر حملہ کرنا چاہتے ہیں یا وہاں پر کسی پر حملہ کرنا چاہتے ہیں بلکہ میں نے کہا کہ اگر کوئی دہشت گرد کسی جگہ پر ایسی پوزیشن اختیار کر رہا ہے، جس کے بعد وہ حملہ یا دہشت گردی کا واقعہ کرے گا تو یہ بین الاقوامی قانون ہے کہ اس کو ہم جواب دے سکتے ہیں اور ہمیں ایسا کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کی حکومت کے حوالے سے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں باقاعدہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ کسی اور سے بات کرنے بجائے افغانستان کی حکومت سے بات کی جائے اور ہم ان سے بات کریں گے۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ جہاں تک دھمکی کا تعلق ہے تو مخصوص طور پر کبھی کسی کو اور کبھی کسی کو دی جاتی ہیں لیکن عمومی خطرہ تو ہے، اس بارے میں جو اقدامات پہلے کرنے چاہئیں وہ ہم کر رہے ہیں۔
کالعدم ٹی ٹی پی پی کی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو دھمکی
خیال رہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے دھمکی آمیز بیان میں حکمراں اتحاد کی 2 بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے خلاف ٹھوس اقدامات کرنے پر غور کر نے کا اعلان کیا تھا۔
ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ کافی عرصے سے ٹی ٹی پی نے کسی سیاسی پارٹی کے خلاف اقدام نہیں کیا ہے مگر بدقسمتی سے موجودہ حکومت کی قیادت پر معلوم نہیں امریکا کا جادو کیسے چل پڑا ہے کہ بلاول صاحب نے اپنی ماں کی محبت کی پیاس بجھانے کے لیے امریکا کو ماں کا درجہ دیا اور اس بوڑھی ماں کی محبت میں آپے سے باہر ہوکر ٹی ٹی پی کے خلاف اعلان جنگ کیا۔
بیان میں مزید کہا گیا اگرچہ بلاول صاحب ابھی کم سن ہیں، اس بیچارے نے ابھی تک جنگ کی کیفیت کا مشاہدہ نہیں کیا ہے، دوسری جانب وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی نہ جانے کس تصور میں امریکا کی خوشنودی کی خاطر ٹی ٹی پی کے خلاف طبل جنگ بجا کر پوری پارٹی کو اس جنگ میں دھکیل دیا۔
ٹی ٹی پی کی جانب سے انتباہ جاری کرتے ہوئے مزید کہا گیا کہ ’لہٰذا ٹی ٹی پی برسراقتدار مسلط کردہ ٹولوں (پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن) کے خلاف ٹھوس اقدامات اٹھانے پر غور کررہی ہے، اگر یہ 2 پارٹیاں اپنے مؤقف پر ڈٹی رہیں اور فوج کی غلامی کا نشہ ان کے دماغ سے نہ نکلا تو پھر ان کے سرکردہ لوگوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی، عوام ایسے سرکردہ لوگوں کے قریب جانے سے اجتناب کریں‘۔
بیان میں مذببی قیادت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’مذہبی قیادت کی خدمت میں عرض ہے کہ ٹی ٹی پی کی پالیسی میں آپ حضرات کے خلاف اقدام کی کوئی گنجائش نہیں ہے مگر آپ حضرات سے بھی گزارش ہے کہ آپ حضرات بھی ہمارے خلاف سرگرمیوں سے پرہیز کریں، یہ بات خاص طور پر یاد رکھنے کی ہے کہ مجاہدین اسلام اور مذہبی جماعتوں کے مابین محاذ کھولنا باطل قوتوں کی بہت بڑی جیت ہوگی‘۔
ٹی ٹی پی کی جانب سے کہا گیا کہ ہم چاہتے ہیں کہ مجاہدین اور مذہبی جماعتوں کے مابین جنگ کے بجائے ہم آہنگی ہو اور ہم مل کر نظریہ پاکستان کے حصول اور ملک کے اندر امن و امان کو یقینی بناے کی کوشش کریں۔
واضح رہے کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے دھمکی آمیز بیان ایسے وقت میں جاری کیا گیا ہے جب گزشتہ چند ماہ کے دوران ملک میں امن و امان کی صورتحال ابتر ہوچکی ہے، 28 نومبر کو ٹی ٹی پی کی جانب سے جنگ بندی کے خاتمے کے اعلان کے فوراً بعد خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کا ایسا غیر معمولی سلسلہ شروع ہوا جس کے نتیجے میں صرف دسمبر کے دوران 2 درجن سے زائد حملے رونما ہوئے۔
دوسری جانب سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (سی آر ایس ایس) کی جانب سے جاری کردہ تازہ رپورٹ میں 2023 کے دوران پاکستان کو مزید پرتشدد واقعات کا سامنا ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔
6 دسمبر کو نئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ جب تک پائیدار امن اور استحکام حاصل نہیں کر لیتے، دہشت گردی کے خلاف جنگ قوم کی حمایت سے جاری رہے گی اور مادر وطن کے دفاع کو ہر قیمت پر یقینی بنایا جائے گا۔
28 دسمبر کو پاک فوج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے پر زور دیتے ہوئے اس عزم کا اظاہر کیا تھا کہ پاکستان کے عوام کی خواہشات کے مطابق کسی تفریق کے بغیر اس ناسور کا خاتمہ کردیا جائے گا۔
ملک میں دہشت گردی کے حملوں میں اضافے کے بعد پاکستان افغانستان کے حکام پر دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کے لیے مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے۔
30 دسمبر کو وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے نجی چینل ’ایکسپریس نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ خیبرپختونخوا کے جن علاقوں میں ٹی ٹی پی کی موجودگی ہے، ان کو کلیئر کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر افغانستان ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر کارروائی نہیں کرتا تو پھر بین الاقوامی قانون کے تحت یہ حق حاصل ہے کہ اگر کوئی دہشت گروہ کسی اور علاقے میں موجود اپنے ٹھکانے سے حملہ کرنے کا منصوبہ کرے تو اس پر حملہ کیا جاسکتا ہے‘۔
2 جنوری کو افغان حکام نے ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی کے حوالے سے وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کا بیان مسترد کرتے ہوئے اسے ’اشتعال انگیز اور بے بنیاد‘ قرار دے دیا۔
دریں اثنا قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں نام لیے بغیر افغانستان کی طالبان حکومت پر زور دیا گیا تھا کہ کسی بھی ملک کو دہشت گردوں کے لیے کوئی پناہ گاہ یا سہولت فراہم کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ، پاکستان اس حوالے سے اپنے شہریوں کی حفاظت کے تمام حقوق محفوظ رکھتا ہے۔
اسی طرح وزیر دفاع خواجہ آصف نے بیان دیا تھا کہ افغانستان کی سرزمین مسلسل پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے، حالانکہ طالبان نے دوحہ معاہدہ کیا تھا کہ وہ اپنی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، یہ افغان عبوری حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ دہشت گردوں کو افراتفری پھیلانے سے روکیں۔
گزشتہ روز 3 جنوری کو چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ تحریک طالبان افغانستان ایک حقیقت ہے جبکہ تحریک طالبان پاکستان ایک فتنہ ہے، ہم قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ ہم عمران خان کی پالیسی نہیں مانتے، ہم پاکستان میں آئین کی رٹ قائم کریں گے اور دہشت گردوں کے خلاف ایکشن لیں گے، پرامن لوگوں کے لیے سو بسم اللہ لیکن دہشت گردوں کو میں، حکومت یا عوام کوئی بھی ماننے کو تیار نہیں ہے۔