ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران کے باعث پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) میں مسلسل دوسرے روز حصص کی قیمتوں میں کمی آگئی ہے۔
بینچ مارک کے ایس ای-100 انڈیکس دوپہر ایک بج کر 58 منٹ پر ایک ہزار 38 پوائنٹس یا 2.54 فیصد گر کر 39 ہزار 932 پوائنٹس پر آگیا۔
سربراہ دلال سیکیورٹیز صدیق دلال نے کہا کہ انڈیکس میں کمی کئی وجوہات کی وجہ سے آئی جس میں پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے تحلیل ہونے کا خدشہ اور بڑھتی ہوئی سیاسی محاذ آرائی شامل ہیں جس سے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے، سال کے اختتام کی وجہ سے میوچل فنڈز کے پاس ریڈیمشنز آرہی ہیں جس کی ادائیگی کے لیے وہ بھی مارکیٹ میں شیئرز فروخت کررہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مارکیٹ پر اثرانداز ہونے والے دیگر عوامل میں بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال، روپے پر دباؤ، ڈالر کی کمی اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے نویں جائزے کی تکمیل میں تاخیر شامل ہیں۔
صدیق دلال نے کہا کہ یہ تمام عوامل مارکیٹ کو نیچے لا رہے ہیں اور مستقبل میں بہتری کی کوئی امید بھی نظر نہیں آرہی۔
ڈائریکٹر فرسٹ نیشنل ایکوئٹیز لمیٹڈ عامر شہزاد نے کہا کہ ’ڈالر کی قلت سمیت بہت سارے مسائل جمع ہو چکے ہیں لیکن اس کی بنیادی وجہ سیاسی غیر یقینی صورتحال اور 2 صوبائی اسمبلیوں کی ممکنہ تحلیل ہے جبکہ غیر ملکی ذخائر پر دباؤ بھی موجود ہے۔
سابق ڈائریکٹر پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) ظفر موتی والا نے بھی اس بات سے اتفاق کیا کہ اسٹاک مارکیٹ گرنے کی بنیادی وجہ سیاسی غیر یقینی صورتحال اور ملک کے دیوالیہ ہونے کی افواہیں ہیں۔
ظفر موتی والا نے افسوس کا اظہار کیا کہ ماضی میں بحران کے وقت پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی مرکزی کیپیٹل مارکیٹ کے ارکان کو مسائل حل کرنے اور افواہوں کی تردید کے لیے اکٹھا کیا گیا تھا، تاہم تازہ صورتحال میں ایسا کچھ دیکھنے میں نہیں آرہا۔
واضح رہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے 17 دسمبر کو اعلان کیا کہ 23 دسمبر کو پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں گی تاکہ نئے انتخابات کی راہ ہموار کی جا سکے۔
انہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کے ساتھ ایک ویڈیو خطاب میں کہا تھا کہ آئین نے اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 روز سے زیادہ انتخابات میں تاخیر کی اجازت نہیں دی۔
تاہم اسمبلیوں کی تحلیل کو ناکام بنانے کی کوشش میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی کے ایک وفد نے گزشتہ شب پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرادی۔
علاوہ ازیں اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان کے خلاف بھی آئین کے آرٹیکل 53 کے تحت تحریک عدم اعتماد جمع کرادی گئی ہے۔
دریں اثنا ملک کی معاشی صورتحال دن بہ دن ابتر ہوتی جا رہی ہے، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر تشویشناک حالت میں ہیں جن میں ایک سال کے دوران 11 ارب ڈالر کی کمی آگئی ہے۔
دسمبر 2021 میں مرکزی بینک کے ذخائر 17 ارب 68 کروڑ ڈالر تھے جو رواں برس 9 دسمبر تک 6 ارب 70 کروڑ ڈالر ہوگئے، یہ بمشکل ایک ماہ کی درآمدات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہیں۔
صورتحال کی سنگینی مزید بڑھ گئی ہے کیونکہ 7 بلین ڈالر کے آئی ایم ایف پروگرام کا نواں جائزہ فی الحال ایک ارب 18 کروڑ ڈالر کے اجرا کے لیے آئی ایم ایف اور حکومت کے درمیان زیر التوا ہے جب کہ فریقین کے درمیان بات چیت اور مذاکرات جاری ہیں۔
پاکستان کو مالی سال کے بقیہ حصے میں بیرونی اسٹیک ہولڈرز کو کم از کم 13 ارب ڈالر ادا کرنے ہیں لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ اسے دوطرفہ اور کثیر جہتی اداروں سے مزید رقوم کب موصول ہوں گی جس کے سبب دیوالیہ ہونے کے خدشات پیدا ہورہے ہیں۔