بلوچستان ہائیکورٹ: سینیٹر اعظم سواتی کےخلاف تمام مقدمات ختم کرنے کا حکم

بلوچستان ہائیکورٹ: سینیٹر اعظم سواتی کےخلاف تمام مقدمات ختم کرنے کا حکم


بلوچستان ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر اعظم خان سواتی کے خلاف صوبے میں درج تما مقدمات ختم کرنے کا حکم دے دیا۔

بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس عبدالحمید بلوچ نے سینیٹر اعظم سواتی کے خلاف دائر تین مقدمات ختم کرانے کی درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے سینیٹر پر درج تمام مقدمات ختم کرنے کے احکامات جاری کردیے۔

سینیٹر اعظم سواتی کے مقدمے کی پیروی ان کے وکیل نصیب اللہ ترین نے کی۔

عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے سینیٹر اعظم سواتی پر درج تمام مقدمات ختم کرنے کے احکامات جاری کردیے۔

اعظم سواتی کے خلاف تین مقدمات بلوچستان کے علاقوں وندر، بیلہ اور چمن میں درج کیے گئے تھے جن کو عدالت نے خارج کرنے کا حکم دے دیا۔

قبل ازیں بلوچستان ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم سواتی کے خلاف صوبے میں درج تمام مقدمات ختم کرنے اور انہیں فوری رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

بعد ازاں سینیٹر اعظم سواتی کے وکلا نے کہا تھا کہ سینیٹر کو کوئٹہ میں سندھ پولیس کے حوالے کردیا گیا تھا۔

اعظم سواتی کے وکیل اقبال شاہ نے تصدیق کی تھی کہ انہیں سندھ پولیس نے تحویل میں لے لیا ہے جبکہ اس سے قبل بلوچستان ہائی کورٹ نے ان کے خلاف درج تمام پانچوں مقدمات خارج کرنے اور کسی دوسرے مقدمے میں مطلوب نہ ہونے کی صورت میں رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

پی ٹی آئی رہنماؤں نے اعظم سواتی کو سندھ پولیس کے حوالے کرنے پر شدید تنقید کی اور اس کو قانون کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔

اعظم سواتی کی دوسری بار گرفتاری

خیال رہے کہ 27 نومبر کو اعظم خان سواتی کو فوجی افسران کے خلاف متنازع ٹوئٹ کرنے پر وفاقی تحقیقاتی ادارے نے گرفتار کیا تھا، اس سے قبل انہیں 12 اکتوبر کو آرمی چیف کے خلاف ٹوئٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔

اسلام آباد سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹر (سی سی آر سی) کے ٹیکنیکل اسسٹنٹ انیس الرحمٰن کی مدعیت میں ریاست کی شکایت پر ایف آئی اے کی جانب سے اعظم سواتی کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی گئی ہے۔

سابق وفاقی وزیر کے خلاف مقدمہ پیکا 2016 کی دفعہ 20 اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 131، 500، 501، 505 اور 109 کے تحت درج کیا گیا تھا۔

ایف آئی آر میں تین ٹوئٹر اکاؤنٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اعظم سواتی اور مذکورہ اکاؤنٹس نے غلط عزائم اور مذموم مقاصد کے ساتھ ریاستی اداروں، سینئر افسران سمیت جنرل قمر جاوید باجواہ کے خلاف انتہائی جارحانہ انداز میں ٹوئٹر پر مہم کا آغاز کیا۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اس طرح نام لے کر اور الزام عائد کرنے والی اشتعال انگیز ٹوئٹس ریاست کو نقصان پہنچانے کے لیے مسلح افواج کے افسران کے درمیان تفریق پیدا کرکے بغاوت کی شرارت ہے۔‘

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ اشتعال انگیز ٹوئٹس پر تبصرے کرکے ملزمان نے فوجی افسران کو ان کی ذمہ داریوں اور وفاداری سے بہکانے کی کوشش کی اور اعظم سواتی کی طرف سے یہ بار بار کوشش کی جارہی تھی۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ 26 نومبر کو اعظم سواتی نے ایک ٹوئٹ شیئر کی تھی جس میں لکھا تھا کہ وہ سینئر فوجی افسر کے خلاف ہر فورم پر جائیں گے جبکہ 19 نومبر کو ایک اور ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ٹوئٹ میں لکھا گیا کہ ملک کی تباہی کے ذمہ دار جرنیل ہیں جس پر اعظم سواتی نے جواب دیا کہ ’شکریہ۔‘

ایف آئی آر کے مطابق 24 نومبر کو ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ کی ٹوئٹ میں لکھا گیا تھا کہ ’تبدیلی کا آغاز اداروں سے کرپٹ جرنیلوں کا گند صاف کرنے سے ہونا چاہیے تھا،‘ جس پر بھی اعظم سواتی نے جواب دیا کہ ’شکریہ‘۔

ایف آئی آر میں مزید لکھا گیا ہے کہ 24 نومبر کو ایک اور ٹوئٹر اکاؤنٹ نے ایک متنازع ٹوئٹ کیا گیا جس پر اعظم سواتی نے انتہائی جارحانہ انداز میں جواب دیا۔

ایف آئی آر کے مطابق سینیٹر کے خلاف ماضی میں بھی اسی طرح کی شکایات درج ہوئی ہیں، مزید لکھا گیا ہے کہ اعظم سواتی نے ریاست کے ستونوں کے درمیان بدنیتی پیدا کرنے کی کوشش کر کے عام لوگوں اور مسلح افواج کے اہلکاروں کو اکسانے کی کوشش کی۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ اعظم سواتی نے غلط معلومات کی بنیاد پر رازداری کی خلاف ورزی کی جو کسی افسر، سپاہی، سیلر یا ایئرمین کو میوٹنی یا اپنے فرائض میں کوتاہی پر اکسانے کی کوشش ہے، مزید کہا گیا ہے کہ ایسے بیانات سے عوام میں خوف پیدا ہونے کا بھی امکان ہے۔


اپنا تبصرہ لکھیں