وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج قوم کے سامنے بے نقاب ہونے کے بعد وہ قومی ناسور کی صورت اختیار کرگیا ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ عمران خان آج ایک پھر قوم کے سامنے بے نقاب ہوگیا، ان کے بے نقاب ہونے کے بعد وہ قومی ناسور کی صورت اختیار کر گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح سے انہوں نے اپنی سیاست کے لیے سائفر کا ڈرامہ اور گھناؤنا کھیل رچایا اور ملک اور قوم کے نقصان کے بارے میں نہیں سوچا اس سے ان کی ذہنی کیفیت اور سوچ سامنے آ گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف اگر ادارے کے مفاد کو نذر انداز کرکے اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے تاحیات مدت ملازمت میں توسیع کی پیش کش قبول کرلیتے تو ٹھیک تھا، پھر اس کی تعریفیں کی جاتیں، وہ محب وطن جرجیل قرار دیے جاتے لیکن اگر انہوں نے اپنی ذات پر ادارے کو ترجیح دی اور تحریک عدم اعتماد کو ناکام کرنے کے لیے سیاسی کردار ادا کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ پہلے جو ہوچکا وہ وہ چکا، اب ادارہ غیر سیاسی کردار ادا کرے گا تو پھر وہ میر جعفر، میر صادق، نیو ٹرل، جانور اور غدار ہیں۔
وزیرداخلہ نے کہا کہ عمران خان کی ذہنیت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اور ادارہ اس کے مفادات کے لیے اس کی سیاست کے لیے کام کرے تو ٹھیک اور اس کی تعریفیں ہوں گی لیکن اگر کوئی اس کے مفادات کے خلاف جائے تو پھر وہ چور، ڈاکو، میر جعفر، میر صادق اور غدار بھی ہے، آپ عمران نیازی کی ذہنی پستی دیکھیں کہ کس سطح پر جا کر وہ قوم کو تقسیم کرنے کی سیاست اور سازش کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان خود اور ان کی پارٹی کے رہنما لانگ مارچ کے حوالے سے خونی ہونے کے دعوے کرتے رہے ہیں، انہوں نے کہا تھا کہ 25 مئی کو بھی لاکھوں لوگ آئیں گے لیکن اس میں وہ ناکام ہوئے اور اب ایک بار پھر وہ ناکام ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ ارشد شریف کے قتل کے بعد انہوں نے پروپیگنڈا کیا کہ انہیں ڈرا دھمکا کر زبردستی باہر بھیجا گیا، یہ پروپیگنڈا اسی طرح کا کھیل ہے جو سائفر کے معاملے پر کھیلا گیا، سائفر والے کھیل کی طرح اس معاملے میں بھی ان کا مکروہ چہرہ سامنے آئے گا کہ ان کا اس میں کیا گھٹیا اور گندا کردار ہے۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ عمران خان نے کہا کہ انہیں ڈرایا گیا، سوال یہ ہے کہ انہیں کس نے ڈرایا، تھریٹ الرٹ کے پی حکومت نے جاری کیا، میں دعوے سے کہتا ہوں کہ انکوائری کے بعد ہم اس چیز کو ثابت کردیں گے کہ وہ تھریٹ الرٹ فرمائشی تھریٹ الرٹ تھا، وہ جاری ہی اس لیے کیا گیا کہ ارشد شریف کو ڈرایا جائے کہ تمہیں طالبان کی جانب سے اسلام آباد کی حدود میں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ اس تھریٹ الرٹ کے بعد وہ دبئی چلے گئے جہاں ان کا ویزہ مدت ختم ہوگئی، میں پوچھتا ہوں کہ اگر دبئی میں آپ کا ویزہ ختم ہوجائے تو کیا وہ آپ کو جیل میں ڈال دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہوتا، میرے خیال میں اس سے قبل آپ کو ویزہ مدت سے متعلق نوٹس دیے جاتے ہیں، مرحوم ارشد شریف کو ڈرایا گیا، دھمکایا گیا اور مشورہ دیا گیا اور انہیں دبئی سے کینیا بھیجا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی موصول ہونے والے حقائق جن کی مزید تصدیق کا عمل جاری ہے اور تصدیق کے بعد قوم کے سامنے رکھا جائےگا، جو لوگ کینیا میں ارشد شریف کے ساتھ تھے ان میں خرم اور وقار نامی لوگوں کا نام لیا جارہا ہے، خرم نامی شخص جو پہلے روز سے ارشد شریف کے ساتھ تھا وہ اے آر وائی کا ملازم ہے، یہ بات نہ صرف سامنے آچکی ہے بلکہ کنفرم اور ری کنفرم بھی ہوچکی ہے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ وہ متازع فارم ہاؤس (دی فارم ہاؤس) اس کے متعلق بھی کچھ اطلاعات موصول ہوچکی ہیں، اس کے بارے میں دو تین روز بھی مصدقہ خبریں موصول ہوجائیں گی، اس کے علاوہ وقار نامی شخص کے بارے میں معلومات مل جائیں گی کہ وہ کون تھا اور اس کا اس معاملے میں کیا کردار تھا۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ گاڑی پر فائرنگ کہاں ہوئی، اس کے بعد گاڑی رکی کیوں نہیں، اس کے بعد گاڑی کو کہاں لے جایا گیا ہے، بادی النظر میں مبینہ طور پر ان تمام سوالات کے تابے بانے، اشارے 2 اشخاص کی جانب جاتے ہیں، ان میں سے ایک کا نام عمران خان اور دوسرے کا نام سلمان اقبال ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ اتفاق ہے تو یہ بہت عجیب اتفاق ہے انہوں نے جب بھی لانگ مارچ شروع کرنا ہوتا ہے تو ان کو لاشیں مل جاتی ہیں، 2014 میں سانحہ ماڈل ٹاؤن مل گیا، اس کی بنیاد پر انہوں نے اپنے لانگ مارچ کی بنیاد رکھی، شاید انہوں نے سوچا کہ 25 مئی کا لانگ مارچ بھی اسی لیے ناکام ہوا کیونکہ اس کی بیناد لاش پر نہیں رکھی گئی اور بد قسمتی ہے کہ انہیں اس صحافی کی لاش میسر آگئی ہے اور اب اس پر وہ اپنے فتنے اور فساد لانگ مارچ کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے کہا تھا کہ میں جمعے یا جمعرات کو لانگ مارچ کا اعلان کر رہا ہوں لیکن پھر انہوں نے منگل کے روز کیوں اپنے لانگ مارچ کا اعلان کیا جب کہ اسی رات ارشد شریف کی میت کو کینیا سے لایا جا رہا تھا تو ایسے میں انہیں اپنے لانگ مارچ کو 2 روز قبل اعلان کرنے کی ضرورت کیا تھی۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کی جانب سے دو ٹوک اور واضح پیغام قوم کے سامنے رکھا ہے کہ ایک فیصلہ ادارے نے کیا ہے کہ ادارہ اب غیر سیاسی رہے گا اور کسی قسم کی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا، وہ اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرے گا۔
انہوں نے کہا ملک کے تمام سیاسی رہنماؤں، کارکنوں اور صحافیوں نے ملک میں گزشتہ 70 برسوں میں اس مقصد کے لیے جد وجہد کی، مار کھائی اور یہ بات ان تمام لوگوں کے لیے قابل اطمینان اور قابل فخر ہے۔