وزیراعظم شہباز شریف نے حالیہ ہفتوں میں سامنے آنے والے آڈیولیکس پر چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر تنقید کرتے ہوئ ےکہا ہے کہ 5 ماہ سازش کے بیانے پر قوم کو کنفیوژ کیا گیا اور اب سازش کا تانا بانا عمران خان سے مل چکا ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ آپ کے ساتھ میری گفتگو ہوئی تھی اور اس کے اگلے دن ایک اور آڈیو لیک ہوئی تھی اور جس دن میں گفتگو کر رہا تھا اس دن میری آڈیو لیک ہوئی، جس کو اچھالا گیا اور قوم کو بتایا جارہا تھا کہ اگلے دن ایک اور آڈیو لیک ہوگئی۔
ان کا کہناتھا کہ اگر مجھے کسی اور کی آڈیو لیک کرنی ہوتی تو میں اپنی آڈیو لیک کیوں کرتا۔
انہوں نے کہا کہ 3 اپریل 2022 کی بات ہے جب عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ ہونی تھی، ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری ایوان چلا رہے تھے تو اس وقت کے وزیراطلاعات نے کھڑے ہو کہا کہ اس حکومت کے خلاف سازش ہوئی تھی، اس سازش کے تانے باتے غیرملکی طاقتیں اور تحریک لانے کی اپوزیشن سےملتے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ قاسم سوری نے تحریری بیان پڑھا کہ سازش کی اس کہانی کی بنیاد پر قرارداد کو مسترد کرتا ہوں اور ہم سے پوچھا نہیں، میں قائد حزب اختلاف چیختا رہ گیا لیکن میری بات نہیں سنی۔
انہوں نے کہا کہ اسی دوران عمران خان ٹی وی پر نمودار ہوئے اور کہا کہ اسمبلی توڑ رہا ہوں 20 منٹ کے اندر صدرپاکستان نے اسمبلی توڑنے کی سمری منظور کردی، مملکت کے بے شمار اہم معاملات صدر صاحب کے پاس ہفتوں پڑے رہتے ہیں لیکن اسمبلی توڑنے کی سمری 20 منٹ میں منظور کرلی۔
وزیراعظم نے کہا کہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر نے وزیراطلاعات کی زبانی سازش کی جو کہانی بیان کی گئی، اس کو من وعن مان کر قرارداد فوراً مسترد کردیا اور اسمبلی برخاست کرنے کی سمری بھیجنے کی اطلاع فوری بھیج دی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ سازش کی اس بنیاد پر اگلے 5 ماہ عمران خان اور ان کے حواریوں نے قوم کا وقت برباد دیا کیا، اپنے پارٹی کے اراکین کو پختہ یقین ہوگیا، حالات دیکھ کر فیصلہ کرنے والے ووٹرز کو کنفیوژ کیا اور عمومی طور پر قوم کو ہیجانی کیفیت میں ڈال دیا۔
انہوں نے کہا کہ امپورٹڈ حکومت، ملک کا سودا کرنے، ضمیر فروش نجانے کیا کیا الزامات لگائے، جس کا کوئی وجود تھا، نہ کوئی سر اور نہ کوئی پیر تھا، پاکستان کے کسی بھی سیاسی لیڈر کے بارےمیں کچھ بھی کہہ سکتے ہیں لیکن اس سے زیادہ قبیح اور گھناونی سازش اور کوئی ہو نہیں سکتی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے شروع دن سے کہا ہے اس سے برا فعل نہیں ہوسکتا کہ عمران خان سازش کی بات کر رہے ہیں اور ہمیں قوم کے سامنے غدار ٹھہرا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں نے قومی اسمبلی پر کھڑے ہو کر کہا کہ خدانخواستہ مجھ پر یا ہمارے اتحادیوں پر یہ سازش ثابت ہوجائے تو قوم کو اختیار ہے ہمیں اور مجھے پھانسی پر چڑھا دے۔
شہباز شریف نے کہا کہ آج سازش کا تانا بانا عمران خان کے ساتھ مل چکا ہے، یہ بات میں الزام کی بات نہیں کر رہا بلکہ ٹھوس شواہد کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں کیونکہ جو آڈیو لیک آئی ہے، اس میں عمران خان نے کیا کہا ہے کہ کھیل کھیلنا ہے اور نام نہیں لینا کس کا امریکا کا تو پھر آڈیو میں کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آڈیو میں عمران خان کا سازشی ٹولہ کہہ رہا ہے منٹس تو ہم نے بنانے ہیں اور اپنی مرضی سے بنانے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خودی یا خود اعتمادی کی بنیاد کہاں ہے پوری قوم بہتر جانتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بدترین بددیانتی کی گئی، خیانت کی گئی، قوم کے اعتماد کے ساتھ کھیلا گیا، وطن کا وقار ایسے سفاکانہ اور بدترین طریقے سے مجروح کیا گیا کہ تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی کیونکہ ملک کی 75 ساکی تاریخ میں بڑے بڑے واقعات ہوئے مگر ان واقعات کے ساتھ اس طرح وطن کی اہمیت اور عزت کو اس طرح مجروح نہیں کیا گیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ ایک سنگین واردات کی گئی اور سنگین کھیل کھیلا گیا کیونکہ ہوبہو الفاظ ہیں کہ ہم نے کھیلنا ہے، نام نہیں لینا تو قوم بتائیں کہ کوئی ابہام رہ گیا کہ اصل مکروہ سازش کس نے کی اور وہ چہرے کون ہیں، عمران خان اور سازشی ٹولہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ پاکستان کے خلاف سنگین سازش ہے، کس طرح ہمارے تعلقات مجروح ہوگئے اور ہم تنکا تنکا جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ سازشی ذہن قوم کے خلاف غداری کا مرتکب ہوگیا ہے، بیٹھے بٹھائے کہے اپوزیشن نے امریکا کے ساتھ ساز باز کی ہے، یہ امپورٹڈ حکومت ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ میں کہنا چاہتا ہوں کہ مکروہ سازش کے تانے بانے اور سازشی چہرے قوم نے دیکھ لیے ہیں، اس میں کوئی ابہام نہیں ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے دو اجلاس ہوئے، جس کے اعلامیے میں کہا گیا کہ اس سازش کا سائفر سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بھیانک اور خطرناک واقعہ پاکستان کے ساتھ پیش آیا، اس کی تمام تر ذمہ داری عمران خان اور اس کے ٹولے پر ہے، اس کے بعد قوم کو کسی قسم کے کنفیوژن میں نہیں رہنا چاہیے۔
آڈیو لیکس پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس آڈیولیک کے بعد انتہائی دوست ملک کا سفیر ملنے آئے اور دفترخارجہ میں بیٹھے ہوئے تھے جہاں مجھے ایک طرف لے کر گئے کہ مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب کون وزیراعظم ہاؤس میں آکر اعتماد کے ساتھ بات کرسکے گا، اگر دوست اور برادر ممالک کا رویہ ایسا ہے تو جو دوسرے ممالک کا رویہ کیا ہوگا، کون پاکستان کی بہتری، بھلائی، ترقی اور خوش حالی کے لیے آکر اس وزیراعظم ہاؤس میں بات کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ ہیں وہ ناقابل تلافی نقصانات جو میری حکومت کو نہیں آئندہ آنے دہائیوں تک یہ نقصان پاکستانی قوم برداشت کرتی رہے گی۔