سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے قومی احتساب (نیب) آرڈیننس میں موجودہ مخلوط حکومت کی حال ہی میں کی گئی ترامیم کو چیلنج کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرتےہوئے دعویٰ کیا کہ حکومت کسی بھی سرکاری عہدے کے حامل شخص کے ذریعے کیے جانے والے وائٹ کالر جرم کو عملی طور پر ختم کر دے گی۔
نیب قوانین میں ترامیم پر عمران خان اور ان کی پارٹی کے دیگر رہنماؤں نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جب کہ پی ٹی آئی چیئرمین کا کہنا تھا کہ یہ حکومتی اقدام ملک کو تباہ کر دے گا۔
دوسری جانب حکمران اتحاد نے دعویٰ کیا کہ نیب قانین کے باوجود مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات جاری رہیں گے۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ ترامیم کا مقصد حکومتی رہنماؤں کے خلاف درج کرپشن کے مقدمات ختم کرنا نہیں ہے۔
انتخابی اصلاحات سے متعلق بل کے ساتھ نیب ترامیم سےمتعلق بل بھی گزشتہ ماہ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کیا گیا تھا، دونوں ایوانوں سے اس کی منظوری کے بعد اسے قانون بننے کے لیے صدر کی منظوری درکار تھی۔
تاہم، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے دونوں بلوں کو واپس بھیج دیا تھا جس کے بعد حکومت نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر ان کی منظوری دی تھی، صدر عارف علوی نے دوبارہ ان پر دستخط کرنے سے انکار کرتے ہوئے انہیں غیر ترقی پسند اور پسماندہ قرار دے کر واپس بھیج دیا تھا لیکن طریقہ کار کے مطابق مشترکہ اجلاس سے بل پاس ہونے کے 10 دن بعد اسے قانون سمجھا جاتا ہے چاہے صدر نے منظوری سے انکار کر دیا ہو۔
پی ٹی آئی کی جانب سے آج دائر کی گئی درخواست میں سابق وزیراعظم نے سیکریٹری قانون و انصاف ڈویژن کے ذریعے فیڈریشن آف پاکستان اور چیئرمین کے ذریعےنیب کو کیس میں مدعا علیہ نامزد کیا ہے
خواجہ حارث کے توسط سے دائر نیب ترامیم کیخلاف آرٹیکل 184/3 کی درخواست تیار کی گئی ہے، درخواست میں وفاق اور نیب کو فریق بنایا گیا۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ نیب قانون کے سیکشن 2،4،5، 6،25، 26 14،15، 21، 23 میں کی ترامیم بھی آئین کے منافی ہیں۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ نیب قانون میں یہ ترامیم آئین کے آرٹیکل 9، 14، 19اے, 24, 25 کے بنیادی حقوق کے برعکس ہیں۔
درخواست چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ نیب قانون میں کی گئی ان تمام ترامیم کو کالعدم قرار دیا جائے۔
نیب ترمیم
نیب (دوسری ترمیم) بل 2021 میں کہا گیا ہے کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، جو وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کیا جائے گا، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بن جائے گا۔
بل میں چیئرمین نیب اور بیورو کے پروسیکیوٹر جنرل کی 4 سال کی مدت بھی کم کر کے 3 سال کر دی گئی ہے۔
قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکے گا۔
مزید یہ کہ ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا ہے۔
بل میں کہا گیا ہے کہ اس آرڈیننس کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی۔
بل نے احتساب عدالتوں کے ججوں کے لیے 3 سال کی مدت بھی مقرر کی ہے، یہ عدالتوں کو ایک سال کے اندر کیس کا فیصلہ کرنے کا پابند بھی بنائے گا۔
مجوزہ قانون کے تحت نیب کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ملزم کی گرفتاری سے قبل اس کے خلاف شواہد کی دستیابی کو یقینی بنائے۔
بل میں شامل کی گئی ایک اہم ترمیم کے مطابق یہ ایکٹ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے شروع ہونے اور اس کے بعد سے نافذ سمجھا جائے گا۔