پتوکی کے علاقے چونیاں بائی پاس کے قریب سڑک پر ڈکیتی کے دوران دو نامعلوم ڈاکوؤں نے کم سن لڑکی کو اس کے والد اور دیگر اہل خانہ کے سامنے گن پوائنٹ پر گینگ ریپ کا نشانہ بنا ڈالا۔
شکایت کنندہ کے مطابق وہ موٹر سائیکل پر اپنے بھائی (متاثرہ لڑکی کے والد)، ایک بھتیجے (عمر 6 سال) اور ایک بھتیجی (عمر 13 سال) کے ساتھ پتوکی کے قریب گاؤں کنی سے چونیاں میں کھوکھر توچر اشرف گاؤں اپنے گھر جا رہے تھے۔
شکایت کنندہ نے بتایا کہ جب وہ پتوکی صدر پولیس اسٹیشن کی حدود میں چک نمبر 7 کے قریب پہنچے 2 ڈاکوؤں نے انہیں گن پوائنٹ پر روک لیا۔
ڈاکوؤں نے موٹر سائیکل پر سوار چاروں افراد کو سڑک کے کنارے ایک نرسری میں لے جانے کے بعد مردوں اور بچے کو درخت سے باندھ دیا اور ان کی آنکھوں کے سامنے لڑکی کو گینگ ریپ کیا۔
واقعے کی ایف آئی آر میں کہا گیا کہ گینگ ریپ کے دوران جب متاثرہ لڑکی نے مزاحمت کی اور مدد کے لیے چیخ و پکار کی تو ملزمان نے اسے تشدد کا نشانہ بنایا۔
بعد ازاں انہوں نے متاثرہ خاندان سے نقدی، موبائل فون اور موٹر سائیکل بھی چھین لیا۔
پولیس نے متاثرہ لڑکی کو طبی امداد کے لیے تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال پتوکی منتقل کیا۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ حمزہ شہباز نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے تحصیل چونیاں کے علاقے کھوکھر توچر اشرف میں متاثرہ لڑکی کی رہائش گاہ کا دورہ کیا۔
حمزہ شہباز نے متاثرہ لڑکی، اس کے والد اور خاندان کے دیگر افراد سے ملاقات کی اور لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے ملزمان کی جلد گرفتاری کی یقین دہانی کرائی۔
اہل خانہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بچی کو انصاف فراہم کرنا ان کا فرض ہے اور اہل خانہ کو یقین دلایا کہ انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے اور ملزمان سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت متاثرہ خاندان کے ساتھ کھڑی ہے جس کی ہر ممکن مدد کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ کیس کی تحقیقات لاہور کے مایہ ناز اور پیشہ ور افسران کریں گے۔
میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ انہوں نے متاثرہ خاندان کی تکلیف کو محسوس کیا اور ان سے ملنے آئے، ساتھ ہی انسپکٹر جنرل آف پولیس سے گینگ ریپ واقعے کی رپورٹ بھی طلب کرلی۔
آئی جی پنجاب راؤ سردار علی خان نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ آر پی او سے رپورٹ طلب کر لی۔
انہوں نے افسران کو واقعے میں ملوث تمام ملزمان کو گرفتار کرنے کی ہدایت کی اور ڈی پی او قصور سے متاثرہ خاندان سے قریبی رابطہ رکھنے کو کہا۔
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر صہیب اشرف نے ڈان کو بتایا کہ متاثرہ لڑکی کو طبی علاج اور کاؤنسلنگ کے بعد ہسپتال سے چھٹی دے دی گئی۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے مشتبہ افراد کی گرفتاری کے لیے پانچ ٹیمیں تشکیل دی ہیں اور علاقے میں سرچ آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔
بعد ازاں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پیغام میں ڈی پی او نے ریپ کے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ نمونے پنجاب فرانزک سائنس اتھارٹی کی لیبارٹری بھجوا دیے گئے ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایک مشتبہ شخص کو شک کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا ہے لیکن ابھی تک اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے کہ کیا وہ اس واقعے میں ملوث تھا۔
پولیس نے لڑکی کے چچا کی شکایت پر دو نامعلوم ڈاکوؤں کے خلاف پی پی سی کی دفعہ 376 (ریپ کی سزا) اور 392 (ڈکیتی کا جرم) کے تحت مقدمہ درج کیا۔