وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ انتخابات کے حوالے سے جتھے کے سربراہ عمران خان کی ڈکٹیشن نہیں چلے گی اور انتخابات کب کرانے ہیں اس کا فیصلہ ایوان کرے گا۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ہماری عوام نے فیصلہ کرنا ہے کیا ہمیں فتنے کا راستہ روکنا ہے یا اس کی اجازت دے کر ملک کو تباہی کی طرف دھکیلنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی تحریک انصاف کے مارچ میں ایک حاضر سروس افسر پر تشدد کیا گیا تھا اور آج پھر خونی مارچ کیا گیا۔
شہباز شریف نے کہا کہ مہذب معاشروں میں خونی مارچ کو روکنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آتے ہیں مگر اس کے برعکس ہم نے بہت احتیاط کی کہ کسی کی جان نہ جائے، مگر جتھے کے سربراہ نے پورے ملک کو نقصان پہنچایا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ کبھی دنیا کی تاریخ میں ایسا نہیں ہوا کہ کوئی صوبہ وفاق پر حملہ کرے، صوبے کی حکومت کے سربراہ کے ساتھ وفاق پر حملہ کیا گیا۔
اسلام آباد میں لانگ مارچ کے دوران جلائے گئے درختوں کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ بلین ٹری کے جھوٹے نعرے لگانے والوں نے درختوں کو جڑوں سے کاٹا اور آگ لگائی۔
انہوں نے کہا کہ آج پارلیمنٹ کو جواب دینا ہے کہ کیا ہمیں تخریب کی طرف جانا ہے یا تعمیر کی طرف، پاکستان کو بنانا ہے بگاڑنا ہے، کیا ہمیں تباہی کا راستۃ اختیار کرنا ہے یا پاکستان کو بنانے کا۔
وزیر اعظم نے مزید کہا کہ میں تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے غیر آئینی جتھوں کو روکنے کے لیے اپنے فرائض ایمانداری سے ادا کیے۔
لاہور میں پولیس کارروائیوں کے دوران شہید سپاہی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شہید سپای کے لیے ایوان دعاگو ہے، شہید سپاہی کے بچوں کو کون تسلی دے گا کہ ان کا باپ کب واپس آئے گا۔
وزیر اعظم نے لاہور میں شہید ہونے والے پولیس اہلکار اور زخمی اہلکاروں کے لیے وفاقی حکومت کی طرف سج پیکج دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ان کا حوصلہ بڑھے گا کہ حکومت ان کے ساتھ کھڑی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہزاروں پاکستانیوں، افواج پاکستان، پولیس، چاروں صوبوں اور خاص طور پر خیبرپختونخوا کے لوگوں نے دہشت گردی کے خلاف قربانیان دی ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ آج پشاور میں جہاد کے نعرے لگائے جا رہے ہیں لیکن یہ بتایا جائے کہ یہ جہاد کس کے خلاف کیا جا رہا تھا، انہوں نے مزید کہا کہ خیبرپختونخوا میں مذہب کو ذاتی مقصد کے لیے استعمال کیا گیا جس کی یہ ایوان مذمت کرتا ہے۔
ایندھن پر دی گئی سبسڈی کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ایندھن کے موجود نہ ہونے کے باجود اور قیمت میں اضافہ ہونے کے باجود بھی عمران خان نے اس پر سبسڈی دی تاکہ ہمیں مشکلات کا سامنا ہو اور وہ پھر عوام کو اکسائے کہ میری حکومت میں پیٹرول سستا دیا جا رہا تھا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ جہاں ہسپتالوں میں ادویات مفت ملتی تھی وہ سابق وزیر اعظم نے بند کردیں،ہیپاٹائٹس کا مفت علاج بند کیا گیا، عوام کی زندگی تباہ کی گئی، یہ انسان پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا ساتھی نہیں ہے۔
کشمیری حریت رہنما یٰسین ملک کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عقل کا اندھا بھی جانتا تھا کی یٰسین ملک کی قسمت کا فیصلہ بھارت کرنے جا رہا ہے مگر اس انسان نے کشمیریوں کا خیال بھی نہیں کیا، کشمیریوں کا اتنا احترام تھا تو کل اس دن کے بجائے کسی اور دن کا انتخاب کیا جاتا مگر عمران خان کو کشمیریوں کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔
انہوں نے کہا کہ وہ شخص، نعیم الحق،جو ان کی پارٹی کے بانی ممبر تھے ان کا کراچی میں انتقال ہوگیا لیکن عمران خان نے ان کے جنازے میں بھی شرکت نہیں کی، جس شخص کا یہ عالم ہو اس کو کشمیریوں کی کیا پرواہ۔
انہوں نے کہا کہ کل یٰسین ملک کے حوالے سے پوری دنیا میں آواز اٹھ رہی تھے مگر اس شخص نے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی، یٰسین ملک عظیم ماں کا عظیم بیٹا ہے، بھارتی جارحیت کی یہ ایوان مذمت کرتا ہے، جب تک ہمارے جسموں میں سانس ہے کشمیریوں کی حق خودارادیت کے لیے کھڑے ہوں گے۔
وزیر اعظم نے مزید کہا کہ اس وقت ملک کو خطرات کا سامنا ہے مگر میں جتھے کے سربراہ کو واضح کرنا چاہتا ہوں کہ تمہاری ڈکٹیشن نہیں چلے گی، ایوان ہی اس بات کا فیصلہ کرے گا انتخابات کب ہونے ہیں۔
انہو نے کہا کہ بات چیت کے لیے دروازے کھلے ہیں اور اس کے لیے کمیٹی بھی تشکیل دی جا سکتی ہے مگر یہ یاد رہے کہ ڈکٹیشن گھر میں دو ایوان کو نہیں۔
وزیر اعظم نے مزید کہا کہ اگر عمران خان کے حق میں عدالتی فیصلے آئیں تو سب اچھا اور اگر کوئی فیصلہ ان کے خلاف آئے تو اداروں کو گالیاں دی جاتی ہیں، عدالت عظمٰی کو گالیاں دی جاتی ہیں اور پاکستان کے خلاف سازشیں کی جاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ قومی دکھی قوم ہے کب تک یہ ڈرامہ کیا جائے گا، کب تک ترقی کے راستوں کو روکا جائے گا، کوئی زمانہ تھا جب پاکستان کئی حوالوں سے بھارت سے آگے تھا، 90 کی دہائی میں پاکستانی روپے کی قدر ہندوستانی روپے سے زیادہ تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ 90 کی دہائی میں پاکستان کی معیشت کو آزاد کیا گیا اور ہندوستان نے ہماری نقل کی، اب معیشت کی بہتری کے لیے ہماری ٹیم دن رات محنت کر رہی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ آج بھارت کی آئی ٹی کی برآمد دو سو ارب ہیں جبکہ پاکستانی آئی ٹی برآمد صرف ڈیڑھ ارب روپے ہے۔